انٹرا افغان ڈائیلاگ، افغان حکومت و طالبان کا مزاکرات جاری رکھنے پر اتفاق
دوحہ: طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری ہیں فریقین نے اپنا اپنا ایجنڈا پیش کر دیا ہے اور اس پر دلائل دینے کا سلسلہ جاری ہے.
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق افغان حکومتی وفد کی قیادت افغانستان کی اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ اور طالبان وفد کی قیادت ملا عبدالغنی برادر کررہے ہیں۔
مذاکرات میں سابق صدر حامد کرزئی اور متعدد اعلٰی افغان شخصیات بھی شریک ہیں عبداللہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے تاہم مذاکرات کی میز پر امن کی اشد ضرورت ہے.
انھوں نے کہا امید ہے کہ طالبان ان مذاکرات کو امن کے موقع کے طور پر دیکھیں گے اور اس بات کو سمجھیں گے کہ زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کرنے سے امن قائم نہیں ہوسکتا۔
قطر کې د سولې د بین الافغاني خبرو مهمه ناسته پیل شوه!
— abidsilab .عابد سیلاب (@abidsalab) July 17, 2021
په دې ناسته کې د طالبانو د قطر دفتر لوړپوړي مشران "ملابرادر اخند، شیخ عبدالحیکم حقاني، شیخ شهاب الدین دلاور، عبداللطیف منصور، عبدالسلام حنفي، قاري دین محمد حنیف" او نور مشران ګډون لري
الله دې وکړي چې خبرې ښه پایله ولري pic.twitter.com/fPd4hfNvCn
واضح رہے کہ پاکستان میں بھی آج سے تین روزہ افغان امن کانفرنس ہونی تھی جو افغان صدر کی درخواست پر ملتوی کردی گئی۔
قطر میں بین الافغان مذاکرات میں کابل حکومت اور طالبان وفد کے درمیان عبوری حکومت کی تشکیل، جنگ بندی اور طالبان قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق بین الافغان مذاکرات کا دوبارہ سے آغاز ہوا تاہم اس دور کی خاص بات طالبان کا افغانستان میں کئی اضلاع، مرکزی سرحدوں اور اہم کاروباری راہداریوں کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد نفسیاتی برتری حاصل کرلینا ہے۔
مذاکرات میں افغانستان کی موجودہ حکومت کو ختم کرکے عبوری حکومت کے قیام، جنگ بندی کی شرائط اور مزید طالبان قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا تاہم کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکا۔ مذاکرات کے مزید دور بھی ہوں گے۔
مزاکرات میں کابل حکومت کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے فریقین کے پر امن رہنے کے لیے لچک دکھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم سب کی اولین ترجیح ملک میں جنگ کے مکمل خاتمے اور متفقہ سیاسی تصفیے پر ہونا چاہیے۔
انھوں نے کہاکہ ہم سب کی نگاہ مشترکہ مستقبل پر ہونی چاہیے جس کے افغان عوام حق دار ہیں،طالبان وفد کے سربراہ ملاعبدالغنی برادر نے کہا کہ کسی بھی تصفیے تک پہنچنے کے لیے سب سے ضروری چیز عدم اعتماد کا خاتمہ کرنا ہے۔
انھوں نے واضح کیا کہ اگر ایک دوسرے پر اعتبار نہیں ہے تو معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمیں اپنے مفادات نظر انداز کرکے عوام کے اتحاد کیلئے کوششیں کرنا ہے۔
اس دوران فریقین نے مذاکرات کے جاری رہنے اور ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ رابطے بحال رکھنے کی ضرورت پر اتفاق کیا تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ مذاکرات مزید کتنے دن جاری رہیں گے؟ تاحال کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔
گزشتہ برس 29 فروری کو دوحہ میں ہی امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد بین الاافغان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا تاہم 10 ماہ سے وقفے وقفے سے جاری مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے، اب مذاکرات کا دوبارہ جاری ہیں۔
Comments are closed.