ہزارہ سے لساں نواب تک
جنید شیر تنولی
آج کئی دنوں کے بعد قلم اٹھانے کی جسارت ہوئی، ذہن میں کئی موضوعات دستک دے رہے تھے، ایک ایسے موضوع کا انتخاب کیا جو ہمارا وجود اپنے اوپر اٹھاۓ ہے ۔سوہنی دھرتی "ہزارہ "جس کیلئے کچھ کرنا ہمارے اوپر قرض بھی ہے اور ہمارا فرض بھی۔
ہزارہ جرّی جوانوں ،اشوک کی چٹانوں،راجہ رسالو کی داستانوں،بلندو بالا پہاڑوں ،فلک بو س کوہساروں ، قد آور دیو داروں ،قدرتی جھرنوں ،خوبصورت جھیلوں ،اور قدرتی شاہ کاروں کی سر زمین ۔اس کے جنگلوں میں دھاڑتے شیر ہوں یا اس کی بل کھاتی سڑکوں کے پھیر ہوں سب اپنے اوپر رب تعالٰی کی کبریائی کو لپیٹے ہوئے ہیں ۔
یہ قتیل شفائی کا ٹھکانہ ، نسیم حجازی کی جائے پیدائش، ڈاکٹر عبدالله کی آنکھوں کا تارا، انور شمیم کا مسکن، اور شاہ اسماعیل کا مدفن بھی ہے۔ یہ اٹک کو الوداع کرتا کشمیر سے گلے ملتا دکھائی دیتا ہے۔
یہ سادہ اور منکسرالمزاج لوگوں کی سرزمین اور ایوب خان کی نازِ جبین ہے۔ یہ خطہ ایک قدرتی شاہکار ہے ۔اس کو پاکستان کا سوئٹزر لینڈ کہنا غلط نہ ہو گا۔ اس کے بڑے اضلاع میں ہریپور ،مانسہرہ اور ایبٹ آباد شامل ہیں ۔اس میں اللّه کی قدرت کی ثنائی کرتی سرزمین ناران اور کاغان بھی ہے۔ اس میں قدرت کی ایک مینا کاری "سیف الملوک” بھی ہے ۔قدرت کی شان کی گواہی دیتا بالاکوٹ بھی شامل ہے ۔یہ برف پوش پہاڑوں کی سر زمین ہے ۔ایوبیہ اور نتھیا گلی بھی اس کے خوب صورت سیاحتی مقامات ہیں۔
آسمان سے باتیں کرتا کوہ بھینگڑہ (سِری) بھی اپنے دامن میں کئی راز سمیٹے ہوئے ہے۔ گندگر کی پہاڑی بھی خاموش ہے۔ بریڑی بھی اداس نظر آتا ہے ۔پھولوں کی سر زمین ،سکولوں کی سر زمین ایبٹ آباد بھی اپنے دامن میں کئی راز دفن کئے بیٹھا ہے ۔ہزارہ کا ضلع ہریپور بھی یہاں کئی سال پہلے سکھوں کی موجودگی کی خبر دیتا ہے ۔ضلع مانسہرہ بھی بدھ مت کے آ ثاروں کا امین ہے۔ اسی ضلع میں شامل وادی تناول قدرت کا ایک الگ ہی شاہکار دکھائی دیتی ہے ۔
تناول میں واقع لساں نواب اس وادی کا سب سے بڑا قصبہ ہے ۔یہ خوب صورت اور دلیر لوگوں کی سر زمین ہے ۔پہاڑوں سے ٹکرانے ،اوجِ ثریا تک پہنچنے کا عزمِ مصمم رکھنے والے جوانوں کی دھرتی لساں نواب تناول ۔
کوہ ِبھینگڑہ (سری ) جنوب سے اس کو آنکھوں میں سموتی ہوئی نظر آتی ہے ۔لساں نواب کئی دستارداروں کا مسکن اور کئی شاہسواروں کا مدفن بھی ہے ۔
یہ جفاکش ،بہادر و شمشیرزن اور سادہ مزاج لوگوں کی سر زمین ہے۔ آنکھوں میں کئی خواب سجائے اس دھرتی کے بچے ،کچی سڑکیں مگر عزم کے پکّے اس کے جوان ، اس سر زمین کو پھلتا دیکھ کر دل پے ہاتھ رکھنے والے بوڑھے، اور اس کی ترقی کیلئے ہاتھ اٹھائے خواتین اس علاقے کا سب سے بڑا حسن ہیں ۔اس دھرتی کی صبح میں کوئل کی کوک اور اس کی شام میں عصر و مغرب کا خوبصورت امتزاج دیکھنے والوں اور سننے والوں کو چین بخشتا ہے۔
اس دھرتی کی جرّی سپوت آنکھوں میں خوب صورت خواب سجائے صبح صبح جب "گورنمنٹ ڈگری کالج لساں نواب ” کا رخ کرتے ہیں تو اس کا نظارہکرتا فلک اور اس منظر کو اپنے اندر سموئے ہوئے دلکش پہاڑ بھی ان کے تابناک مستقبل کیلئے دعاگو نظر آتے ہیں۔
وادی لساں نواب کے دامن میں کئی خوبصورت گاؤں آباد ہیں ۔اس کے شمال میں واقع گاؤں "جھوکاں”اور ” پلسالہ” اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے گاؤں ہیں ۔اس کے مغرب میں واقع گاؤں "شکوکی میرا "اور ” سیری” جفاکش لوگوں کے گاؤں ہیں ۔شائستہ زبان اور جرّ ی لوگوں کی زمین "بائی بوہال ” اور شوقین لوگوں کا مسکن اور قدرتی جھرنوں کی سر زمین "الیاس” اس کے بالکل مغرب میں واقع ہیں ۔اس کے بالکل دامن میں شمال کی جانب "بٹل” اور "جسگراں” اور بالکل پاس جنوب کی جانب گاؤں "پنگوڑی "واقع ہیں ۔اس کے افق میں پہاڑوں کے ساتھ دیدہ زیب گاؤں ” کھمیاں”واقع ہے ۔
وادیء لساں نواب ایک یونین کونسل ہے ۔اس کی آبادی کم و بیش 50000 کے لگ بھگ ہے ۔لساں نواب کا بازار مضافات کے لوگوں کی ضروریات کو پوری کرتا ہے ۔وادی میں کئی نجی و سرکاری تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں ۔یہاں پر کئی پرائمری اور ہائی اسکول ہیں ۔یہاں پر طالبات کیلئے "گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول ” اور طلباء کیلئے "گورنمنٹ ڈگری کالج لساں نواب” اس علاقے کے بڑے تعلیمی ادارے ہیں ۔جن میں پڑھنے والے طلباء و طالبات اپنی آنکھوں میں کئی ارمان لئے صبح صبح اپنی منزل کی جانب سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہاں پر صحت کا سب سے بڑا ادارہ "آر ایچ سی لساں نواب ” ہے۔ یہاں پر اسٹاف کی کمی کی وجہ سے لوگوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔یہاں پر نادرا آفس نا ہونے کی وجہ سے لوگوں کو دوسر ے قصبے "دربند” تک کا سفر کرنا پڑتا ہے جو بہت مشکل ہے، اس وادی کے پہاڑوں کے ساتھ بل کھاتی سڑکیں ایک الگ اور دلکش منظر پیش کرتی ہیں ۔
وادی میں ایک پریس کلب بھی ہے جو کہ "تناول پریس کلب ” کے نام سے جانا جاتا ہے ۔جس میں کئی اعلی ظرف اور تعلیم یافتہ لوگ موجود ہیں ۔اس کی بنیاد 2004 میں ملک کے معروف صحافی محمّد سردار تنولی مصنف (محفلِ تنولیاں) نے رکھی ۔یہاں پر موجود تمام لوگ وادی کے مسائل وقتاً فوقتاً حکومت کے ایوانوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
وادیء لساں نواب دراصل قدرت کا ایک بہترین شاہکار ہے،اس مضمون میں اختصار کے ساتھ وادی کا محلِ وقوع قارئین کے سامنے رکھا ہے ۔انشاءاللہ آئندہ اس کی تاریخ اور ثقافت قارئین کی نذر کروں گا دعا ہے کہ اللّه اس دھرتی کو یوں ہی شاد کام رکھے ۔آمین
Comments are closed.