کردار کشی ! میں بے قصور ہوں
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین
کردار کشی ایک ایسا گھناؤنا ہتھیار ہے جسے تاریخ میں گندے دماغوں نے ہر اس انسان پر آزمایا جس کی گفتگو میں اثر، جس میں اختلاف کی جرات اور حق و باطل میں تمیز کا پاس ہو
میں یہاں انبیائے کرام علیہم السلام سے لے کر صحابہ ذی قدر بالخصوص شیخین کریمین، صدیق و فاروق، مولائے کائنات علی المرتضی، حیائے ایمان سیدنا عثمان بن عفان رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ، وارث چادر تطہیر سیدہ طیبہ طاہرہ ابیہا علیہا افضل الصلوة والسلام ، صاحب آیات برات صدیقہ کائنات رضی اللہ تعالی عنہا کی امثال پیش کرنے سے اپنی ان سے غلامی کے پٹے کو ڈھیلا کروانا نہیں چاہتا ۔
لیکن بتلانا یہ مقصود ہے کہ بہتان اور تہمت طرازی 50 دن سے زیادہ اللہ کو گوارا نہیں اس لیے بندہ اپنی بے گناہی کا صرف سری اظہارکرے جہری نہیں اور اللہ کی تدبیر کا مغموم دل سے منتظر رہے ، قرآن کا ایک ایک حرف حق اور انسان کی بہتری کے لیے ہے، ہر شر میں اللہ نے خیرکو پوشیدہ رکھا ہے، ہر نیکی اپنے ساتھ محسن کش کوجنم دیتی ہے ، ہر اچھی نیت پر بری نیت کا سایہ ہوتا ہے
میرا بس سارے معاملے میں اتنا تعلق ہے کہ میں نے ایک غریب ٹیکسی ڈرائیور کی مالی مددکی جو کہ آپ سب جانتے ہیں ، برسوں سے میرا شیوہ ہے اور میں بعض امداد کی بھنک تک نہیں پڑنے دیتا ، لڑکی اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ پارلیمنٹ لاجز آئی ان کے پاس واپسی کا کرایہ تک نہ تھا میں نے جو ممکن ہوسکا چیک کی صورت میں دیا،انھوں نے کہا آپ ایک بار ہمارے گھر آکر پانی ہی پی لیں ہم کھاریاں سے ہیں، مہمان نوازی کرنا چاہتے ہیں، ہماری عزت بڑھ جائے گی، میں چند دنوں بعد ان کے گھر گیا۔واپسی پر چونکہ میں وہیں سے ایئر پورٹ جارہا تھا۔
انھوں نے کہا ایئرپورٹ ہمارے گھر سے قریب ہے ہم بھی چلیں گے، میں نے اجازت دے دی، میری عادت ہے کہ میں قریبی لوگوں کے ساتھ مسکراتے اور قریبی تعلق ظاہر کرتے ہوئے تصویر کھنچواتا ہوں اور اجنبیوں کے ساتھ بس ہلکی مسکراہٹ یا سنجیدہ چہرے کے ساتھ میرے ساتھ سیکڑوں افراد تصاویر کھنچواتے ہیں اور یہ اللہ کی عطا ہے اس لیے منع کرنا کسی کی آس توڑنے کے مترادف ہے لہٰذا منع نہیں کرتا۔
نہیں جانتا تھا کہ کوئی ان کو استعمال کرسکتا ہے
نہیں جانتا تھا کہ بعض کڑوے سچ کہہ دینے سے کردار پر حملہ ہوگا۔
نہیں جانتا تھا کہ ایم این اے ہو کر بھی سائبر کرائم سے لے کر پولیس اور انتظامیہ تک درخواستوں پر کارروائی نہیں ہوگی۔
نہیں جانتا تھا کہ سوشل میڈیا کے بعض چینلز پر بیٹھے نت نئے افراد جنھیں اردو میں بات تک کرنے کی تمیز نہیں اور دوسرے مؤقف کے بنا پہلے مؤقف کو پھیلانے کی سعی آداب صحافت کے برخلاف ہے اور مسلسل کسی ٹھوس ثبوت کے بنا اس کے آخری نام کی جگہ میرا نام لگانا، اللہ کے ہاں جواب دہ ہوسکتا ہے وہ تمام چیمپئنز انٹرویو کی دوڑ میں یہ بنیادی سوالات کرنے سے بھی قاصر رہیں گے۔ پوچھنا چاہیے تھا ان عظیم صحافیوں کو نکاح نامہ کہاں ہے؟
تصوراتی نکاح کے گواہان کون تھے اور انھیں پیش کیوں نہیں کرتیں؟
سول عدالت میں مدعیت کا دعویٰ کیوں نہیں کرتیں؟
عدالت میں مقدمہ دائرکر کے نکاح کے ثبوت پیش کیوں نہیں کرتیں؟
تصوراتی نکاح سے اب تک صرف دو یا تین تصاویر؟
یہ پچاس لاکھ اور فلیٹ کا کیا معاملہ ہے؟ کیا کہیں لکھ کردیا ہے اگر دیا ہے تو دکھاؤ؟
عامر کے غنڈے ہیں تو کون کون ہیں جنھوں نے گھر میں گھس کر بند کردیا اور کیا وہیں بیٹھے رہے؟ عامر تو رمضان نشریات کررہا تھا۔
سب جھوٹ، پلانر کی منصوبہ بندی عین رمضان المبارک میں بد نام کرنے کی تھی لیکن جن ہستیوں کا ذکر ہورہا تھا انھوں نے تہمت کی ایک نہ چلنے دی، کراچی میں عدالت نے اسے چھوڑتے ہوئے تنبیہ کی کہ اگر یہ تمہارا شوہر ہے تو سول عدالت جاؤ، سڑکوں پر ویڈیو نہ بناؤ اورکردار کشی نہ کرو یہ وارننگ ہے تاہم اس کے باوجود کوئی تو پیچھے ہے ورنہ یہاں تو پیج بندکرنا ، گرفتارکر کے تحقیقات کرنا ، بندہ غائب کردینا معمول ہے میں الحمد للہ اہل سنت و الجماعت عقیدے کا حامل ہوں کوئی مجھے شیعہ سمجھے یا رافضی اس کا جواب وہ خود روز حشر اللہ کو دے گا۔
ہاں بی بی سیدہ کے نام پر جان قربان
ہاں مولا علی میری جان جہان
ہاں حسنین کریمین پر میرا سب کچھ قربان
ہاں آئمہ کرام مجھ پر کرم کا نشان
ہاں عظمت صحابہ میرا دل میری جان
یاد رکھیے اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے اور حق ہے میں بے قصور ہوں، بے گناہ ہوں اس سے زیادہ کچھ کہنا نہیں چاہتا۔
میرے اپنے مجھے چھوڑ گئے، جن کے لیے ہم نے سب کچھ چھوڑا وہ اک ذرا سی آندھی میں ہاتھ چھڑا بیٹھے کیونکہ سب کو اپنا مستقبل عزیز ہے لیکن جس سے مستقبل ہے وہ عزیزنہیں میں نے ایسے تلخ ادوار، لمحات اورحالات بارہا دیکھے ہیں لیکن درگذر کی عادت نے مجھے ہمیشہ گھیرے میں لیابعضوں نے بڑا سمجھایا کہاایسے انسان کو بار بار معاف نہ کرو کہ احسان فراموشی جس کی عادت ہو تاہم جب سے شہزادے علی اصغر کی شہادت پڑھی ہے رقیق القلب ہوچلا ہوں۔
معاف کیجیے گا آپ کا وقت لیا یہ میری صفائی نہیں صرف حقائق ہیں کردار کی صفائی میرا رب جانتا ہے اور مجھے اپنے رب ہی پر بھروسا ہے۔
ایک بات اور ابلیس کا طریقہ ہے کہ وہ جن پر وار کرتا ہے انھیں خدا کے لہجے میں بولنا سکھاتاہے لہٰذا امام جوزی لکھتے ہیں کہیں جب تم دیکھو کہ کوئی بار بار اپنا نام لے کر اپنی ہی تعریفوں اور کمالات کے قصے سنا رہا ہے۔پچھلی کہی یاد نہیں رکھتا کیونکہ وہ بھی خودساختہ ہوتی ہیں اور تم دیکھو گے کہ وہ رازوں کا امین نہیں ہوگا اور تم دیکھو گے کہ وہ میاں بیوی کے درمیان جدائی کرائے گا یہ اس کا پسندیدہ کام ہے اوراس کے چہرے پر خباثت ہوگی اور تم دیکھو گے کہ وہ پل میں بدلے گا پل میں پھر بدلے گا اور تم دیکھو گے کہ وہ سخی کے خلاف ہوگا کیونکہ ابلیس کو سب سے زیادہ تکلیف کسی سخی کے مدد کرنے سے پہنچتی ہے۔
پلانرزیعنی سازشی عناصر سے بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب آپ پے درپے گرانے کی کوشش فرماتے ہیں تو طاقت کے نشے میں مدہوش بھول جاتے ہیں کہ آپ طاقت ور نہیں،قادرو مطلق وہی ہے جو گرانے پر آجائے توکوئی اٹھا نہیں سکتااور اٹھانے پر آجائے تو کوئی گرا نہیں سکتا، آپ نے وقت دیکھ کر وار کیا، شور تو بہت مچا لیکن شعورنہیں تھا، بقول منظر بھوپالی
لذت جہاد اپنی زخم کھا کے جاگے گی
پہلا وار تم کر لو دوسرا ہمارا ہے
خیال رہے کہ ساری عمر جینے کی وجہ کوئی نہیں پوچھتا لیکن مرنے والے دن سب پوچھتے ہیں کیسے مرا؟میں سمجھ جاتا ہوں چالوں کو مگر کچھ دیر لگتی ہے، وہ بازی جیت جاتے ہیں میرے چالاک ہونے تک! اب بھی بظاہر تو سازشی عناصر اس خودفریبی میں مبتلا ہیں کہ وہ راستہ روکنے میں کامیاب رہے لیکن ان ناتجربہ کار سازشیوں کواسکرپٹ پڑھنے والا ہمیشہ ایسا ملا جو اپنی لائنیں پڑھنے کی ضد میں کنٹرول لائن سے باہر ہوجاتا ہے اورپھر کذب و فسانہ بندی میں جابجا غلطیاں بھرے بازارمیں ڈھول پھاڑ دیتی ہیں آپ نے اپنا رنگ دکھا دیا اچھا کیا میں بھی آپ سے بہت کچھ سیکھ چکا ہوں سوائے کمزور اداکارو ں کے..مگر آپ جیسا نہیں، سہہ کر بھی سہوں گا مگر خاموش رہوں گا کیونکہ جب آسمان سے بولا جائے تو زمین والوں پر لازم ہے کہ خاموش رہیں۔
بہت ملال ہوگا آپ کو ہمیں یوں کھو دینے کا
اور ان کو بھی جو کھو چکے۔
Comments are closed.