نفسیاتی دھبہ
طارق عثمانی
پانچ ماہ پہلے کسی ذاتی مسئلہ کی وجہ سے میں شکایت جیسی ایک عجیب سی مرض میں مبتلا ہو گیا میری عجیب سی کیفیت رہنے لگی مزاج میں چڑچڑاپن آگیا۔ ایسی صورتحال میرے ساتھ زندگی میں پہلی بار ہوئی تھی گاؤں میں میرے والد صاحب کے انتہائی قریبی، مخلص اور دیرینہ بزرگ دوست صوبیدار محمد حسین بٹ صاحب سے میں نے اپنی اس حالت کا ذکر کیا۔
انھوں نے میرے مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے سننے کے بعد بڑے مفید مشورے دیتے ہوئے میری اصلاح کی کہ اجتماعی زندگی میں ایک دوسرے سے شکایات پیدا ہوجاتی ہیں انسان کو چاہیے کہ وہ ان شکایات کو نظر انداز کر کے اپنی توجہ مثبت کاموں میں لگائے اور تعمیری سوچ سے آگے بڑھے ۔
بعد ازاں میں نے اسلام آباد آکر نفسیات کے ماہر دوست ڈاکٹر بشیر ایچ شاہ سے اپنے اندر اس نئی قسم کی بیماری کا تذکرہ کیا تو وہ میری بات سن کر ہنسنے لگے، بولے کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے آج کے معاشرے میں ہر گھر میں یہ بیماری عام ہے ۔ ہمیں چھوٹی چھوٹی شکایتیں ہر روز ایک دوسرے سے ہوتی ہیں۔
ہمارے گھروں میں اکثر کوئی ایک رشتے دار دوسرے رشتے دار کی شکایت کررہا ہوتا ہے، کوئی دوست دوسرے دوست کی شکایات کی پٹاری کھولے بیٹھا ہوتا ہے۔ ہمارے سماج کا یہ مشترکہ دکھ بن چکا ہے حالانکہ یہ زندگی کی درست سمت نہیں ہے۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جنھیں دوسروں سے کوئی شکایت نہ ہوئی ہو .
ایسے لوگوں کو جب کسی سے کوئی شکایت پیدا ہوتی تو دراصل اس کا یقین ٹوٹتا ہے اور وہ اسے اپنے دماغ میں سوار کر کے شکایتی مزاج بنا لیتے ہیں، شکایتی مزاج دراصل نفسیاتی کمزوری ہے ۔ اپنے آپ میں تعمیری اور مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیے ، شکایت خودبخود ختم ہو جائے گی۔
ماہر نفسیات اور جہاندیدہ بزرگ، دونوں نے ایک ہی مشورہ دیا۔ دونوں نے ایک ہی علاج بتایا کہ اپنی سوچ میں مثبت اور تعمیری پہلوؤں کو اجاگر کریں، یہی آپ کا علاج ہے۔ یوں دونوں شخصیات نے میری بیماری کی تشخیص بھی کی علاج کے ساتھ ساتھ اپنا قیمتی نسخہ بھی دیا لیکن اس نفسیاتی بیماری کا مکمل علاج 20ویں رمضان المبارک کی رات مولانا وحید الدین خان نے کردیا ہے۔
لکھتے ہیں:-
"سفید کپڑے پر کوئی دھبہ لگ جائے تو آدمی فوراً اس کو دھو کر صاف کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر فوراً اس کو صاف نہ کیا تو بعد کو دھبہ نہیں مٹے گا اور اس کا کپڑا مستقل طور پر داغ دار ہو جائے گا۔ ایسا ہی کچھ معاملہ آدمی کے ذہن کا ہے۔سماج میں رہتے ہوئے بار بار آدمی کے ذہن میں کوئی نہ کوئی بات آتی رہتی ہے۔
مثلاً انتقام ، حسد ، دشمنی ، شکایت ، نفرت وغیرہ۔ اس کے جذبات اور احساسات بار بار ہر مرد اور عورت کے ذہن میں صبح و شام آتے رہتے ہیں۔ وہ آدمی کو منفی احساسات میں مبتلا کرتے رہتے ہیں۔ ایسا ہر تجربہ گویا ایک قسم کا نفسیاتی دھبہ ہے۔ وہ آدمی کے نفسیاتی وجود کو داغ دار کرنے کا ایک واقعہ ہے۔
ان نفسیاتی دھبوں کے لیے بھی آدمی کو وہی کرنا ہے جو وہ مادی دھبوں کے لیے کرتا ہے۔ ہر عورت اور مرد کو چاہیئے کہ جیسے ہی اس قسم کا کوئی دھبہ اس کے نفسیاتی وجود پر لگے تو فوراً وہ اس کو اپنے دل و دماغ سے نکال دے۔ وہ کوئی نہ کوئی توجیہہ کرکے فوراً اپنے آپ کو اس کے زیر اثر آنے سے بچا لے۔
جو مرد یا عورت ایسا نہ کرے اس کو ایسا کرنے کی یہ بھاری قیمت دینا پڑے گی کہ وہ نفسیاتی دھبہ اس کے وجود کا مستقل حصہ بن جائے گا۔وہ اس کی داخلی شخصیت کو ہمیشہ کے لیے داغ دار کردے گا۔ جدید نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے دماغ کے دو بڑے حصے ہیں۔
ایک زندہ ذہن اور دوسرا خفتہ ذہن۔ فطری نظام کے تحت ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی بات آدمی کے ذہن میں داخل ہوتی ہے تو پہلے دن وہ اس کے زندہ ذہن میں رہتی ہے۔ اس کے بعد آدمی جب رات کو سوتا ہے تو نیند کی حالت میں انسانی دماغ کا فطری نظام اس بات کو زندہ ذہن سے نکال کر خفتہ ذہن میں پہنچا دیتا ہے.
جب ایسا ہوجائے تو پھر وہ بات آدمی کے پورے وجود کا حصہ بن جاتی ہے اس کو ذہن سے نکالنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عام طور پر عورت اور مرد دوسروں کے بارے میں شکایتوں اور تلخیوں میں جیتے ہیں۔ ہر ایک کسی نہ کسی کے خلاف منفی نفسیات کا شکار رہتا ہے۔
مگر عین اسی وقت وہی مرد اور عورت اپنے بیٹا اور بیٹی کے لیے ہمیشہ مثبت احساسات کا نمونہ بنے رہتے ہیں۔ حالانکہ ہر مرد اور عورت کو اپنی اولاد سے بھی اسی طرح شکایات کے تجربے ہوتے ہیں جس طرح دوسروں سے ہوتے ہیں مگر تجربہ بتاتا ہے کہ شکایتوں کے باوجود لوگ اپنی اولاد کے معاملے میں ہمیشہ معتدل بنے رہتے ہیں۔
جب کہ یہی لوگ دوسروں کے بارے میں معمولی شکایتوں کو لے کر اس کے خلاف ہمیشہ کے لیے نفرت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اس فرق کا سبب یہ ہے کہ لوگ ان دونوں کے معاملہ میں دو الگ الگ انداز اختیار کرتے ہیں۔ ان کو جب اپنی اولاد سے شکایت کا تجربہ ہوتا ہے تو اسی وقت وہ کوئی نہ کوئی توجیہہ کر کے اس کو ختم کردیتے ہیں۔
اپنی اولاد کے خلاف شکایت کو وہ اپنے ذہن سے فوراً نکال دیتے ہیں اس کے برعکس جب ان کو دوسروں سے کوئی شکایت پیش آجائے تو وہ اس کو اپنے ذہن میں بٹھا لیتے ہیں وہ اس کو یاد کرتے رہتے ہیں، وہ لوگوں سے اس کا چرچا کرتے ہیں وہ کسی نہ کسی بہانے ہر روز اس کو اپنے ذہن میں تازہ کرتے رہتے ہیں۔
اسی فرق کی بنا پر ایسا ہے کہ اپنی اولاد کے خلاف شکایتیں ان کے وجود کا حصہ نہیں بنتیں، وہ پیدا ہوتے ہی فوراً ختم ہو جاتی ہیں، اس کے برعکس دوسروں کے خلاف شکایتیں ہمیشہ کے لیے ان کے وجود کا حصہ بن جاتی ہیں، وہ کسی طرح ختم نہیں ہوتیں۔
یہ ذاتی تجربہ ہر آدمی کو بتاتا ہے کہ اس کو دوسروں کے معاملے میں کیسا ہونا چاہیے اس کو ویسا ہی ہونا چاہیے کہ وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کے معاملے میں ہے ۔۔۔ جب بھی کسی کے خلاف کوئی منفی احساس پیدا ہو تو وہ فوراً ہی اس کو اپنے ذہن سے نکال دے۔ کسی بھی حال میں وہ اس کو اپنے ذہن کا مستقل حصہ نہ بننے دے.
Comments are closed.