محمدی اور یزیدی اسلام کے بیچ خون کی لکیر
وقار حیدر
علامہ طالب جوہری جمادات ، نباتات، حیوانات اور انسان کا فرق بیان کر رہے تھے ۔۔۔ کہہ رہے تھے جمادات اپنی جگہ پر قائم رہتے ہیں جیسے کہ پتھر، ان میں کسی قسم کی کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی ، کہنے لگے ان میں ایک نشوونما کا عنصر شامل کر لیا جائے تو نباتات بن جاتے ہیں یعنی کہ درخت پھلتا پھولتا ہے۔
پھر بولے اس میں اگر چلنے پھرنے کی صفت آجائے تو حیوانات بن جاتے ہیں چلتے پھرتے ہیں ، کھاتے پیسے سوتے ہیں لیکن فہم فراست نہیں رکھتے ، عقل نہیں رکھتے یہی خوبی ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے۔
لیکن جیسے ہیں انسان تجاوز کرنے لگتا ہے خود کو انسان نہیں بلکہ خدا (فرعون) یا پھر نبی (مسلمہ کذاب) کہلوانے لگتا ہےتو پھر خُدا وند کریم اسکی ہدایت کیلئے انبیاء و اماموں کو بھیجتا ہے جو نہ صرف اسکو اپنی حدود کا احساس دلاتے ہیں بلکہ موسیٰ کی طرح پیار سے سمجھاتے بجھاتے بھی ہیں۔
خدا وند کریم نے کم و بیش ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء و رسولوں کو تبلیغ کیلئے مبعوث فرمایا اور جب یہ سلسلہ ختم ہوا تو آخری رسول حضرت محمدؐ نے اپنے جانشینوں کو انسانیت کی ہدایت کی مشعل راہ قرار دیا ۔۔ امام علیؑ و امام حسنؑ کے بعد فرزند رسول ، شاہ شہیدان حضرت امام حسین علیہ السلام دین کی تبلیغ میں سرگرم ہوئے اور شہادت کے عظیم درجے پر پہنچے۔
10 جنوری 626 عیسوی بمطابق 3 شعبان 4 ہجری کو امام حسین علیہ السلام کی ولادت ہوئی ۔۔ ایسی پُر نور آمد کے روز تو ابھی دنیا بھر کے مسلمان خوشی کے دن کے طور پر مناتے ہیں۔ حسین ابن علیؑ کے تعارف کیلئے بس اتنا کافی ہے کہ امام عالی مقام نے محمدی اسلام اور یزیدی اسلام آباد کے بیچ خون کی لکیر کھینچ کر فرق واضح کر دیا.
علی شریعتی لکھتے ہیں آج جس انداز سے امامِ حسین علیہ السلام کو پیش کیا جا رہا ہے
اگر شمرابن ذالجوشن، سنان ابن انس یا عمر ابنِ سعد آ جائیں تو نہ صرف وہ آج کے(پیش کردہ ) اس "حسینؑ ”کو پہچاننے سے انکار کر دیں، شاید اعتراض بھی کر بیٹھیں اور کہیں کہ اگرحسین علیہ السلام ایسے ہی ہوتے تو ہمیں ان کو قتل کرنے کی دلیل ہی کیا تھی؟
بلا شبہ حسینؑ کی معرفت کے باب میں شمر، سنان اور ابنِ سعد آج کے اُن افراد سے زیادہ آگے ہیں جو حسین علیہ السلام کے نام لیوا ہیں۔
علی شریعی کہہ رہے ہیں معرفت خُدا کی طرح معرفت حسینؑ کی ابھی اشد ضرورت ہے ۔۔ حسینت کا دم بھرنے والے پہلے حسینؑ کا تعارف سمجھیں ، یہ سمجھیں کہ آخر کن وجوہات کی بنا پر حسین نے 28 رجب کو مدینہ چھوڑا؟ نہ صرف خود بلکہ بنو ہاشم کے قبیلے کو ساتھ لیا نانا کے روضے کو الوداع کہا اور راہی مکہ ہوئے لیکن 8 ذوالحجہ کو عین اس وقت احرام توڑے جب دنیا بھر کے مسلمان مکہ میں حج بیت اللہ کیلئے وارد ہو رہے تھے گویا بتا رہے تھے دین محمدی کی حفاظت اس وقت حج سے مقدم رہے۔
گویا سورۃ عصر کی آیات سنا رہے تھے ( وَ الْعَصْرِۙ(۱)اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ(۲)اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۠(۳) ترجمہ:خدا وند کریم عصر (زمانے) کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ سارے انسان گھاٹے میں ہیں مگر وہ لوگ جو ایمان والے ہیں، نیک عمل انجام دیتے ہیں اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کرتے ہیں ۔۔۔ یعنی امام حسین عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ اس وقت سب سے اہم کام شریعت محمدی کی حفاظت ہے۔
اس قافلہ میں علمدار حسینؑ ، جناب عباسؑ ابن علی بھی شامل تھے ۔ 4 شعبان 26 ہجری کو پیدا ہونے والے فرزند علی کو دُعائے فاطمہ اور قمر بنی ہاشم کے القابات سے پہچانا جاتا ہے لیکن انکا مشہور ترین لقب علمدار ہے ، کربلا کے معرکہ میں حسینی لشکر کے علمدار کی وفا انکی شخصیت پر غالب نظر آتی ہے، 3 دن کے پیاسے عباس جب فرات پر قبضہ کرتے ہیں لیکن وفا کی حد کرتے ہوئے خود سیراب نہیں ہوتے ۔حضرت عباس پورے عرب میں بہادری و شجاعت کے لیے بھی مشہور تھے۔ ابن منظور لسان العرب میں لکھتے ہیں کہ عباس وہ شیر تھے جس سے دوسرے شیر ڈرتے تھے.
Comments are closed.