سعودی عرب کی پہلی خاتون فارمولہ کار ریسر ریما جفالی
فوٹو: ٹوئٹر
الریاض(شاہ جہاں شیرازی)موٹر سپورٹس میں عالمی شہرت کی حامل سعودی خاتون ڈرائیور ریما جفالی موٹر سپورٹس کو اپنا کیئر یر بنا نا چاہتی ہیں اور اس میں مزید آگے جانے کی خواہشمند ہیں۔
ریاض کے مضافاتی مقام الدرعیہ میں فارمولا ای کی گراں پری چیمپئن شپ ریس میں سعودی خاتون ڈرائیور ریما جفالی نے شرکت کر کے پہلی سعودی خاتون ریسر کا اعزاز حاصل کرتے ہوئے تاریخ رقم کی تھی۔
جدہ میں پیدا ہونے والی27سالہ ریما جفالی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ یہ ایک اعزاز کی بات ہے،سعودی پرچم تلے ریسنگ اور ریسنگ۔ میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنا ایک عاجزانہ تجربہ ہے اور الحمد للہ میں اپنے شوق کی پیروی کر رہی ہوں۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا میرے لیے تیز کار، ایک بہتر کار چلانا یہ ایک بہت بڑا قدم ہو گا جو کہ حقیقت میں دلچسپ ہو گا،سعودی عرب کی پہلی خواتین فارمولہ ریسر کے لیے تیز رفتار ایڈرینالائن سے بھرے ایکشن،زندگی کا ایک طریقہ بن گیا ہے۔
ریما جفالی نے اعلان کیا کہ تھا وہ اس سال بی آر ڈی سی برٹش فارمولا 3 چیمپیئن شپ میں فارمولا 4 سے ڈگلس موٹرسپورٹ کا رخ کریں گی،انھوں نے کہا کہ مستقبل کے لحاظ سے میں کسی ایسے موقع کی منتظر ہوں جو میرے راستے میں آ جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں یقینی طور پر موٹرسپورٹس کی اعلیٰ سطح پر ریس کرنا چاہتی ہوں چاہے وہ لی مینس ریس میں ہو یا فارمولا ای یہ سب کچھ کارڈز پر ہے۔
ریما جفالی نے بچپن میں کھیلوں کو ترجیح دیتے ہوئے سعودی عرب میں صنفی دقیانوسی تصورات اور معاشرتی اصولوں کی خلاف ورزی کی جبکہ دوسری لڑکیوں نے بیلے کا انتخاب کیا۔ انہیں جلد کاروں کا شوق ہو گیا تھا اور وہ چھوٹی عمر سے ہی مختلف کار مینوفیکچرز کا نام لے سکتی تھیں۔
ریما جفالی جب تعلیم حاصل کرنے کے لیے بوسٹن منتقل ہوئیں تو تب انہوں نے ڈرائیونگ شروع کی جو ابھی سعودی عرب میں غیر قانونی تھی اور انہیں فارمولہ 1 سے پیار ہو گیا تھا۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا میں نے مملکت میں اپنا لائسنس حاصل کرنے کے لیے فیڈریشن سے منظوری لی اور یہ ایک بہت ہی آسان عمل نکلا، ایسا محسوس ہوا جیسے میں ابھی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئی ہوں اور جب وقت آیا تو فیڈریشن نے لائسنس کو مملکت کے بینر تلے تبدیل کر دیا۔
ریما جفالی نے عرب نیوز کو بتایا کہ میری والدہ اور والد دونوں نے واقعتاً میری سپورٹ اور حوصلہ افزائی کی اس کیلئے میں ان کی شکر گزار ہوں، اس طرح کے کھیل میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ آپ کو واقعی اچھے سپورٹ سسٹم کی ضرورت ہے۔
پہلی سعودی خاتون ریسر نے کہا حیرت کی بات ہے کہ کسی کھیل میں مقابلہ کرنے کے قابل ہونا جہاں صنفی رکاوٹیں اب بھی واضح ہیں لیکن جب آپ ٹریک پر ہوتے ہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔
صنفی تفریق سے متعلق ایک سوال پر انھوں نے کہاکہ میرے لیے دن کے اختتام پر یہ سب ایک جیسا ہی ہے چاہے میں مرد یا عورت سے مقابلہ کر رہی ہوں، میں بس ان سے آگے بڑھنا چاہتی اور جیتنا چاہتی ہوں۔
ریما جفالی کے کیریئر کا ایک اہم لمحہ ابوظبی گرانڈ پری میں شرکت کے دوران سابق پیشہ ور ریسنگ ڈرائیور اور وینٹوری ریسنگ کے موجودہ ٹیم کے پرنسپل سوسی وولف سے ملناتھا،میں دوبارہ ان کے پاس پہنچی اور ان سے کہا کہ میں ریسنگ کر رہی ہوں انھیں خوشی ہوئی ۔
سعودی ریسر کہتی ہیں کہ پہلی ریس سے قبل انہوں نے انگلینڈ میں اپنی کوچ کے ساتھ صرف چھ ہفتوں کی تربیت حاصل کی تھی، اپنے آس پاس کے شور کو نظر انداز کیا اور زیادہ سے زیادہ ٹریک پر نکل کر اور خود کو مختلف منظر ناموں میں مصروف رکھا۔
29 سالہ ریما جفالی کو دبئی میں ٹی آر ڈی 86 کپ میں پہلی جیت کے بعد خود پر یقین نہیں آ رہا تھا،ریما جفالی نے جلد ہی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا اور آج وہ ایک ماہر ڈرائیور بن گئی ہیں۔
انہوں نے کہا یقینی طور پر ایک اعلیٰ مقام پر یہ میری پہلی جیت تھی۔ ریس شروع کرنے کے طریقے کی وجہ سے یہ میرے لیے ایک چونکا دینے والی بات تھی۔ یہ ایک دو حصوں کی ریس تھی اور مجھے یہ احساس نہیں تھا کہ میں پہلے نمبر پر تھی۔
Comments are closed.