کپتان سرفراز احمد کیوں پھنسا؟
وسعت اللہ خان
جنوبی افریقا کے مدِمقابل ڈربن ون ڈے انٹرنیشنل کے دوران پاکستانی کپتان سرفراز احمد نے جب سیاہ فام جنوبی افریقی آل راوٴنڈر اینڈیلے پھہلو کووایو کی جارحانہ بیٹنگ پر جھلا کر کہا ‘ ابے کالے تیری ماں آج کہاں بیٹھی ہے ، کیا پڑھوا کے آیا ہے تو’
تو مجھے یقین ہے کہ سرفراز کو احساس تک نہ ہوا ہو گا کہ یہ کوئی متعصبانہ، نسل پرستانہ جملہ ہے اور اس پر میڈیا وبال بھی اٹھا سکتا ہے اور تادیبی کاروائی کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔
جب بھارتی بلے باز ہر بجھن سنگھ نے 2007 میں سڈنی ٹیسٹ کے دوران آسٹریلوی کھلاڑی اینڈریو سمنز کو تو تو میں میں کے دوران بندر کہا اور پھر جرمانے کا سامنا کیا تب ہربجھن کے بھی وہم و گمان میں نہ ہوگا کہ کسی کو بندر کہنا ایسی بات ہے کہ اس پر اتنا شور مچ سکتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ دیگر ثقافتوں کی طرح جنوبی ایشیا کے کلچر میں بھی ہم جس ماحول میں پروان چڑھتے ہیں وہاں گالی اور توہین کے معیارات مختلف ہیں۔جو اصطلاحات ، اشارے کنائے کسی ایک کلچر میں قابلِ قبول اور قابلِ برداشت ہیں ضروری نہیں کہ دیگر ثقافتوں میں بھی اسی طرح قبول کر لیے جائیں۔
ہمارے ہاں مرد کا مرد سے گلے ملنا ‘جپھی’ کہلاتا ہے۔لیکن یورپ اور امریکہ کی سڑکوں پر یہی جپھی راہگیروں کے دیدے معنی خیز انداز میں گول گول گھمانے کا سبب بن سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب سیاح، سفارت کار، سیاستدان، فن کار اور کھلاڑی کسی اجنبی جگہ جاتے ہیں تو انہیں بریفنگ کی ضرورت ہوتی ہے کہ جہاں وہ جا رہے ہیں وہاں کون کون سے موضوعات ، جملے اور اشارے ناپسندیدہ گردانے جاتے ہیں۔اگر اس بریفنگ کے بعد بھی کوئی سستی حرکت کرے یا گھٹیا جملہ کہے تو پھر اس حرکت کا قابلِ مواخذہ ہونا بالکل بنتا ہے۔
مثلاً ہمارے کلچر میں کسی کو کالا کلوٹا ، کالا بھجنگ ، کلوا ، جتنے بھی کالے سب میرے باپ کے سالے کہہ دینا نارمل سمجھا جاتا ہے مگر افریقا میں اگر یہی الفاظ استعمال کیے جائیں گے تو کسی بھی سیاہ فام کو مشتعل کرنے کے لیے کافی ہیں۔ کیونکہ سفید فاموں نے رنگ و نسل کی بنیاد پر براعظم افریقا بالخصوص جنوبی افریقا کی سیاہ فام اکثریت کے ساتھ سو برس تک جو بہیمانہ سلوک روا رکھا یا امریکہ میں سیاہ فاموں کو جس قدر توہین آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑا اس کے سبب کسی کی رنگت کا مذاق اڑانا بھی نسلی جرم کے دائرے میں آنا یا کسی سیاہ فام کا غصے میں آنا سمجھ میں آتا ہے۔
ہم جن اصطلاحات کے سائے میں پل کے بڑے ہوتے ہیں ان کے بارے میں ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ ہمارے لیے بھلے ان کے کوئی معنی نہ ہوں لیکن باقی دنیا کے لیے یہ قابلِ قبول نہیں۔چنانچہ جب ردِعمل ہوتا ہے تو ہم سوچنے لگتے ہیں کہ ہم نے ایسا کیا کہہ دیا کہ اگلے کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
مثلاً جس کے سر پر بال کم ہوں یا نہ ہوں اسے گنجا ، ٹکلا ، پیتل ، روڈو کہنا ہنسی مذاق سمجھا جاتا ہے۔موٹے لوگوں کو ہاتھی ، موٹی بھینس ، کھا کھا کے سور ہو رہا ہے ، دبلے لوگوں کے لیے سوکھا ، ڈھانچہ ، مریل ، جس کی آنکھ خراب ہو اسے کانا ، بھینگا ، اندھا کہنا بھی معمول ہے اور اس پر ردِ عمل ہم میں سے اکثر کو حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے۔
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان اور شمالی ہندوستان میں انکار کے لیے گردن دائیں بائیں ہلائی جاتی ہے لیکن اگر جنوبی بھارت کا کوئی شخص گردن دائیں بائیں ہلائے تو اس کا مطلب انکار نہیں اقرار ہو گا۔
کیونکہ ہم اگر خوش ہوتے ہیں تو بے تکلفی کے بے ساختہ اظہار میں ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہوئے بغلگیر ہوتے ہیں ، مذاق کرتے ہیں تو اس میں بھی فحش اشارے یاری کی نشانی سمجھے جاتے ہیں اور غصے میں آتے ہیں تو تب بھی انہی الفاظ و اشارات سے کام لیتے ہیں۔
یہ سب تب تک قابلِ قبول تھا جب تک ہم اپنے لوگوں ، اپنے علاقے اور اپنے حال میں مست تھے۔اب سفر کی آسانی اور مواصلاتی ترقی کے سبب جب سے دنیا ‘گلوبل ولیج’ بنی ہے۔یہ ضرورت اور بڑھ گئی ہے کہ ہم ایک دوسرے کی تہذیبی و ثقافتی حساسیت کو سنجیدگی سے سمجھیں تاکہ ہمارے رابطوں میں پائیداری اور شفافیت بڑھے۔
مثلاً بہت سے لوگوں کے نزدیک انگوٹھا دکھانے کا مطلب حوصلہ افزائی یا خوشی کا اظہار ہے لیکن کروڑوں ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک انگوٹھا دکھانا ٹھینگا دکھانے کے برابر ہے اور یہ خوش خلقی کے بجائے بد تہذیبی سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں ڈرائیونگ کرتے ہوئے ہیڈ لائٹس کو فل بیم پر رکھنا ، خوامخواہ ہارن بجانا یا ہارن کے بجائے تیز ہیڈ لائٹس کو جلا بجھا کر ہارن کے متبادل کے طور پر استعمال کرنا گویا کوئی مسئلہ ہی نہیں مگر باقی دنیا میں سڑک پر ایسی حرکات انتہائی اشتعال انگیز ، توہین آمیز اور قابلِ گرفت سمجھی جاتی ہیں۔
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان اور شمالی ہندوستان میں انکار کے لیے گردن دائیں بائیں ہلائی جاتی ہے لیکن اگر جنوبی بھارت کا کوئی شخص گردن دائیں بائیں ہلائے تو اس کا مطلب انکار نہیں اقرار ہو گا۔اسی طرح بہت سے سماجوں میں کسی اجنبی کو آنکھ مارنا انتہائی بدتہذیبی کے زمرے میں آتا ہے مگر کئی سماجوں میں اس فعل کو گرم جوشی ظاہر کرنے کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں مرد کا مرد سے گلے ملنا ‘جپھی’ کہلاتا ہے۔لیکن یورپ اور امریکہ کی سڑکوں پر یہی جپھی راہگیروں کے دیدے معنی خیز انداز میں گول گول گھمانے کا سبب بن سکتی ہے۔ شاید وہ آپ کو ‘وہ’ سمجھ رہے ہوں جو آپ قطعاً نہیں ہیں۔
لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ جس طرح سفارت کاروں کو بیرونِ ملک پوسٹنگ سے پہلے وہاں کی سماجی حساسیت کے بارے میں بریفنگ دی جاتی ہے اسی طرح کھلاڑیوں اور طلبا کو بھی اجنبی ‘مینرازم’ سے واقف کرانا ضروری ہے اور جو لوگ سیاحت کرنا چاہتے ہیں انہیں شاپنگ کرتے ہوئے کوئی اچھی ٹورسٹ گائیڈ بک بھی خرید لینی چاہیے تاکہ ہمیں اشاروں کنایوں ، حساس اصطلاحات کے بارے میں پیشگی آ گہی ہو اور وہ بطور مہمان اپنے لیے یا اپنے میزبان کے لیے خجالت و شرمندگی کا سامان بننے سے بچ سکیں۔
آپ نے سنا تو ہوگا ” ڈو ان روم ایز رومنز ڈو ”۔اس محاورے کو سمجھنے اور سمجھ کر عمل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ)
Comments are closed.