پیپلز پارٹی کا لاشہ
شمشاد مانگٹ
محترمہ بے نظیر بھٹو کی گیارہویں برسی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی بھی یہ گیارہویں برسی ہے ۔ اکتوبر 2007ء میں واپسی سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کے حوالے سے بہت پرجوش تھیں اور انہیں یقین تھا کہ وہ اس بار پاکستان کے عوام کیلئے بہت کچھ کر گزریں گی ۔ خود ساختہ جلا وطنی نے انہیں ایک بہترین اور بہترین سیاستدان بننے میں کافی مدد دی تھی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اس جلا وطنی کے دوران ہی یہ احساس ہوا تھا کہ آصف علی زرداری کی پارٹی امور میں مداخلت پارٹی کیلئے نقصان دہ ہے اور اس کا انہوں ے برملا اظہار بھی کیا تھا ۔
18 اکتوبر 2007ء کو وطن واپسی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو صرف سیاست کرنے اور عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے خواب دیکھ رہی تھیں کیونکہ اب وہ اس پریشانی سے بھی آزاد ہوگئی تھیں کہ بچے شیر خوار ہیں لہذا محترمہ بے نظیر بھٹو نے امریکی انتظامیہ کے پاکستان میں سیاسی اثرورسوخ کا بھرپور فائدہ اٹھایا اورکنڈولیزا رائس کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کرنے میں کامیاب ہوگئیں ۔
حقیقت تو یہ بھی تھی کہ جنرل پرویز مشرف محترمہ بے نظیر بھٹو سے خائف تھے اور ان کے ساتھ کسی قسم کا معاہدہ نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن امریکیوں کے سامنے جرات انکار بھی نہیں رکھتے تھے اس لئے اس بادل نخواستہ معاہدے کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے مختلف حیلوں بہانوں سے محترمہ بے نظیر بھٹو کو وطن واپسی سے روکنے کی کوشش کی ۔ یہ بھی ہمارے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اقتدار میں موجود مسلم لیگ (ق) کو بھی محترمہ بے نظیر بھٹو سے اتنے ہی خدشات لاحق تھے جتنے جنرل پرویز مشرف کو تھے لیکن امریکی انتظامیہ نے جنرل پرویز مشرف کو مکمل بے بس کردیا تھا اور جنرل پرویز مشرف نے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کو اپنی بے بسی کی داستان بتا کر خاموش کردیا ۔
جنرل پرویز مشرف کا جب اصرار حد سے بڑھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو وطن واپس نہ آئیں تو پھر محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے ایک وصیتی خط میں لکھا کہ اگر مجھے قتل کردیا گیا تو اس کے ذمہ دار جنرل پرویز اشرف ، آئی بی چیف اعجاز اور وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی ہونگے ۔18 اکتوبر 2007ء کا سانحہ کارساز محترمہ بے نظیر بھٹو پر ایک بھرپور حملہ تھا لیکن وہ اتفاقاً بچ گئیں اوراسی صبح کارکنوں کی عیادت کیلئے ہسپتال پہنچی اور مرنے والوں کے لواحقین کو دلاسہ بھی دیا ۔ جان لیوا حملے کے بعد دو ہی صورتیں پیدا ہوتی ہیں کہ یا تو انسان بہت خوف زدہ اور محتاط ہوجاتا ہے اور یا پھر پہلے سے بھی زیادہ دلیر ہوجاتا ہے ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو 18 اکتوبر2007ء کے سانحہ کے بعد پہلے سے زیادہ دلیر ہوگئیں ۔ سانحہ کار ساز کے بعد اگلی صبح محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملنے امریکی سفیر گئی تھیں لیکن محترمہ نے امریکی سفیر کو تقریباً ایک گھنٹہ باہر انتظار کروانے کے بعد شرف ملاقات بخشا تھا ۔ اس دوران پیپلز پارٹی کے سینئر لوگ محترمہ بے نظیر بھٹو کی بے پرواہی پر حیران بھی تھے اور پریشان بھی تھے ۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے میر باز کیتھران کہتے ہیں کہ میں نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے پوچھا تھا کہ امریکی سفیر کو کیوں باہر بٹھا دیا گیا ہے ؟ محترمہ بے نظیر بھٹو کا کہنا تھا کہ یہ لوگ ( امریکی ) پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں ۔ بعد ازاں محترمہ بے نظیر بھٹو اور امریکی سفیر کے درمیان ون آن ون ملاقات ہوئی جس کی تفصیلات محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ دفن ہوگئیں اور یا پھر امریکیوں کے ریکارڈ میں یقیناً موجود ہونگی۔ انہی دنوں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ طالبان لیڈر حکیم اللہ محسود نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کرنے کیلئے خود کش حملہ آور بھجوادیئے ہیں ۔
27 دسمبر 2007ء کی منحوس شام کو بھی محترمہ بے نظیر بھٹو جنرل پرویز مشرف کے سکیورٹی اہلکاروں کو جل دیکر لیاقت باغ پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھیں اور یہی وہ مقتل تھی جو 27 دسمبر کو محترمہ بے نظی بھٹو کیلئے سجائی گئی تھی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریب پستول سے فائرنگ پچھلے گیارہ سال میں سینکڑوں بار دکھائی جا چکی ہے اور اس لرزہ خیز قتل میں قاتلوں نے بے پناہ ثبوت چھوڑے تھے لیکن ان شواہد کو دانستہ غائب کردیا گیا محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد عوام میں جوہمدردی کی لہر پیدا ہوئی اس کا سارا فائدہ آصف علی زرداری نے اٹھایا اور براہ راست ایوان صدر تک اپنی جگہ بنا کر وزیراعظم بھی اپنے ماتحت کرلیا ۔
آصف علی زرداری حالات کے تھپیڑے کھاتے کھاتے اپنے پانچ سال تو پورے کرگئے لیکن ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس دوران انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں تک رسائی کیلئے ایک بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی سیاسی فائدے کیلئے انہوں نے اپنے عقب میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی تصاویر کو ڈھال کے طور پر ضرور لگائے رکھا لیکن عملاً انہیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں رہی کہ تیسری دنیا کی بڑی لیڈر کو کیوں قتل کیا گیا ؟
آصف علی زرداری نے جنرل پرویز مشرف کو قاتل قرار دیا اور جنرل پرویز مشرف نے آصف علی زرداری کو اس قتل کا مجرم قرار دیا ۔ بات اس سے آگے نہیں بڑھی جن مبینہ دہشتگردوں کی گرفتاری کے بعد مقدمہ چلا اس میں پولیس افسران کی ضمانتیں منسوخ ہوئیں لیکن اصل قاتل پھر بھی بے نقاب نہیں ہوا ۔
پیپلز پارٹی 27 دسمبر کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں شہداء جمہوریت کی قبروں پر کھڑا ہوکر ایک دفعہ پھر اپنے خلاف مقدمہ کا رونا روئے گی اور الزام لگایا جائے گا کہ ہمارے خلاف بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں لیکن ان قبروں پر کھڑے ہوکر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری عوام کو یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتل کیوں بے نقاب نہیں ہوئے ؟
سچ تو یہ بھی ہے کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت گڑھی خدا بخش کے تمام شہداء جمہوریت کا قصاص وصول کرچکی ہے گڑھی خدا بخش کے شہیدوں نے عوام کے حقوق کیلئے اپنی جان نچھاور کی لیکن آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے نوٹوں کی بوریاں بھر کر ان قربانیوں کو خاک میں ملا دیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی خوش قسمتی یہ تھی کہ انہیں ورثے میں ایک ایماندار اور سچے سیاسی لیڈر کی پھانسی ملی تھی اور عوام محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر بھٹو کے قرض اتارنا چاہتی تھی لیکن بلاول بھٹو زرداری کی بدقسمتی یہ ہے کہ اسے پاپا اور پھوپھو کی منی لانڈرنگ ٹریل سیاسی ورثے میں ملی ہے ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جو ظلم پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوچکا ہے اس کے بعد آصف علی زرداری لاپتہ بھی ہوجائیں پھر بھی بلاول بھٹو اس کو بلندیوں پر نہیں لے جاسکتے اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا کہ ایک ایسی ملک گیر سیاسی پارٹی جس کا سارا سیاسی ” رس“ نچوڑ کر اسے صنم بھٹو کے حوالے کرنے کی کوشش کی جارہی ہو وہ کیسے سنبھل سکتی ہے۔ صنم بھٹو کو کبھی سیاست سے دلچسپی ہی نہیں رہی صنم بھٹو شہید ذوالفقار علی بھٹو کی وہ بدقسمت اولاد ہے جس نے خاندان کی تمام لاشوں پر ماتم کیا اور اب اسے پیپلز پارٹی کی لاش پر بھی ماتم کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے جوحقائق سامنے آرہے ہیں امید ہے سندھ کے عوام بھی اگلے الیکشن تک باشعور ہوجائیں لوٹ مار کی سیاست نے ایک قومی پارٹی کو لاشے میں تبدیل کردیا اور یہ بڑے دکھ کی بات ہے ۔ یہ دکھ 27 دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے۔
Comments are closed.