”پکوڑا احتجاج“
شمشاد مانگٹ
موجودہ حکومت کے پے درپے اقدامات کے حوالے سے پی ٹی آئی کے کرم فرماؤں کا دعویٰ ہے کہ اس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ حکومتی اقدامات کے اب تک ”مزدور رس“ اقدامات سامنے آئے ہیں۔یوٹیلٹی سٹورز کے مزدور ہفتے بھر کا دھرنا دیکر حکومت سے ضمانت لیکر گئے ہیں کہ انکی نوکریاں محفوظ رہیں گی جبکہ واپڈا اور پی آئی اے سمیت دیگر کئی اداروں کے ملازمین کو حکومت کے ”مزدور رس“ اقدامات سے کپکپی لگی ہوئی ہے۔حکومت کے ان اقدامات کا سب سے بڑا اثر اہل صحافت پر ہوا ہے اور سینکڑوں کے حساب سے قلم کے مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔
حکومتی مفکرین کا دعویٰ ہے کہ ملکی معیشت کی مضبوطی کیلئے پیٹ پر پتھر باندھنا ہوگا۔مگر اہل قلم کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ انہیں پتھر کے ساتھ باندھ کر بے روزگاری کے دریا کے سپرد کیا جارہا ہے تاکہ72گھنٹے بعد بھی بے روزگار کی لاش پانی پر تیر نہ سکے۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ نہ ہی لاش سامنے آئے گی اور نہ ہی بچ جانیوالے ماتم کا بہانہ کریں گے۔
یہ حکومتی اقدامات کا ہی اثر ہے کہ صحافیوں نے پارلیمنٹ کے سامنے پکوڑے بیچ کر احتجاج ریکارڈ کروایا ہے،گزشتہ روز جب پارلیمنٹ کے سامنے ہمارے دوستوں نے پکوڑے تلنے کا”فنی“ مظاہرہ کیا تو مجھے استاد امام دین گجراتی کا ویژن اور انکا شعر بار بار ذہن میں آیا۔
پارلیمنٹ کے سامنے پکوڑے بناتے ہوئے صحافیوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ استاد امام دین گجراتی کو یقین کامل تھا کہ ایک دن آئے گا جب بے روزگاری کی ”بلا“ صحافیوں کے گلے پڑ جائے گی اور انکے پاس پکوڑے بیچنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔پارلیمنٹ کے سامنے”پکوڑا احتجاج“ کا آنکھوں دیکھا حال سنانے والے ایک معتبر صحافی نے بتایا کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے سپیکر قومی اسمبلی کی اجازت سے کسی پی ٹی آئی کے بے روزگار ورکر کو پکوڑوں کا سٹال لگانے کی اجازت دیدی گئی ہو لیکن قریب جاکر معلوم ہوا کہ یہ تو اپنے ہی ساتھی”لُچ تَل“ رہے ہیں۔
دوست صحافی نے بتایا کہ پکوڑے بہت مزیدار بنائے گئے تھے،پکوڑوں کی مقبولیت جونہی بڑھنے لگی تو نیشنل پریس کلب کی سیاست میں تقریباً15سال سے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے ہوئے دوستوں نے پروپیگنڈا شروع کردیا کہ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ نیشنل پریس کلب میں”آؤٹ سائیڈر“ گھسے ہوئے ہیں،ان میں سے کچھ کا اصرار تھا کہ پکوڑوں کی بناوٹ اور لذت سے اندازہ کرلیں کہ کوئی پروفیشنل صحافی ایسے پکوڑے بنا ہی نہیں سکتا اور ایسے پکوڑے تو کوئی پروفیشنل”پکوڑا ساز“ ہی بنا سکتا ہے۔
چونکہ نیشنل پریس کلب کی صاحب اقتدار باڈی کے اہم ترین لوگ بذات خود اس ”پکوڑا سازی“ عمل کی نگرانی کر رہے تھے اس لئے انہوں نے فوری طور پر خطرے کو بھانپتے ہوئے غیر محسوس انداز میں پکوڑا تلنے والے صحافیوں کو پیغام دیا کہ انکی ساخت اور لذت کو فوری طور پر”کمزور“کردیا جائے تاکہ پکوڑوں کے ساتھ ساتھ انکے صحافی ہونے پر کسی کو شک نہ گزرے۔
دوسری طرف اپوزیشن کے ساتھیوں کو بھی اس ”پُرلذت“ نمکین احتجاج پر آگ لگی ہوئی تھی اور یہ آگ اتنی شدید تھی کہ اگر احتجاجی دوست چاہتے تو اپنے گیس سلنڈر کے چولہے بند کرکے اس آگ پر پکوڑے بنا سکتے تھے۔
بہرحال اپوزیشن والے صحافی ساتھیوں کا مؤقف سامنے آیا ہے کہ پکوڑا احتجاج کیلئے باہر سے بندے بلائے گئے وگرنہ افضل بٹ صاحب یا طارق چوہدری صاحب تو پکوڑوں کیلئے دھنیا بھی تیار کرنے کا فن نہیں جانتے البتہ یہ الگ بات ہے کہ تیزی سے بے روزگار ہونے والے صحافیوں کے معاملے پر صحافت کے تمام معتبر لوگوں نے ”دھنیا“ پی لیا ہے اور چھوٹے موٹے احتجاجوں کے ذریعے کارکنوں کو تسلی دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
علامتی طور پر پکوڑے بیچنے کے احتجاج کے ذریعے صحافی برادری یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ مولانا فضل الرحمان الیکشن ہار کر بھی”بے روزگار“ نہیں ہوئے اور انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے نام پر اپنا سودا بیچنا شروع کر رکھا ہے۔مسلم لیگ(ن) کی قیادت کیخلاف اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں لیکن انتقامی سیاست کے نعرے تلے وہ بھی اپنی دکان سجا کر بیٹھ گئے ہیں ۔پیپلز پارٹی آخری حربے کے طورپر غریبوں کے اکاؤنٹس استعمال کرتی پکڑی گئی ہے لیکن سندھ دھرتی کے نام پر ان کا مال بھی کئی سالوں سے بک رہا ہے
۔اسی لئے تو استاد دین امام نے کہا تھا کہ کوئی تن فروخت کرتا ہے اور کوئی من فروخت کرتا ہے اور استاد امام دین کے پاس پکوڑے فروخت کرنے کے سوا کوئی چارا نہیں ہے،استاد امام دین گجراتی نے اپنے مخصوص شہرہ ء آفاق پنجابی شعر کیلئے جو الفاظ استعمال کئے تھے وہ یاتو سنائے جاسکتے ہیں یا سنے جاسکتے ہیں ، لیکن ضابطہ تحریر میں نہیں لائے جاسکتے ۔
ویسے قارئین بہت ہی وسیع مطالعہ رکھتے ہیں اس لئے سب نے دل ہی دل میں شعر دہرا بھی لیا ہوگا ،جہاں تک حکومت کے ”مزدوررس “ رویئے سے چھٹکارے کامعاملہ ہے تو اس کیلئے تمام صحافتی تنظیموں کو ذاتی اختلافات سے بالاتر ہوکر مل کر پکوڑے تلنے ہونگے اور پکوڑے تلنے والوں کی نیت اور قابلیت پر شک سے گریز کرنا ہوگا وگرنہ اگر آج ایک گروپ کے پکوڑے مشکوک ہیں تو کل تمہارے سموسے تیل سمیت مشکوک سمجھے جائیں گے ۔پکوڑانما احتجاج کرنے والوں کیلئے ایک مفید مشورہ یہ بھی ہے کہ آئندہ جب بھی ایسا احتجاج مقصود ہوتو اپنے پیچھے استاد امام دین گجراتی کی تصویر لگا کر انکا نام لکھ دیا کریں باقی صاحب اقتدار خود ہی سمجھ جائیں گے کہ صحافی پکوڑوں کے ذریعے پیغام کیا دینا چاہتے ہیں۔پیپلزپارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی اخونزادہ چٹان نے یکمشت 1000روپے کے پکوڑے خرید کر بے روزگار صحافیوں کی معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی ہے۔
یہ سلسلہ زیادہ دن جاری رہا تو عین ممکن ہے کہ کچھ دوستوں کو یہ احتجاج مستقل روزگار کے طور پر راس آجائے۔ڈی چوک میں ایک دھرنا گروپ آگیا تو احتجاجی پکوڑے فروخت کرنیوالوں کے وارے نیارے ہوجائیں گے کیونکہ ریڈزون میں ایسا مستقل پکوڑے فراہم کرنیوالا ایک بھی سٹال موجود نہیں ہے۔
کل تک صحافیوں کو یہ طعنہ دیا جاتا تھا کہ رات کو تم اخبار تیار کرتے ہواور صبح اس پر پکوڑے رکھ کر بیچے جاتے ہیں اب لوگ یہ بھی کہا کریں گے کہ رات کو تم اخبار تیار کرتے ہو اور صبح اٹھ کرپکوڑے تیار کرکے اسی اخبار میں رکھ کر بیچ دیتے ہو۔حکومت نے ہر شعبے کے مزدوروں کا رس نچوڑدیا ہے پکوڑے بیچنا مجبوری ہے۔
Comments are closed.