تمہیں نیاسال مبارک
وقار حیدر
یہ ہے سنہ 1440 ہجری ۔ عجب بات ہے کہ سال کے آخری مہینے کی 10 تاریخ کو بھی قربانی کی یاد دنیا بھر میں منائی جاتی ہے ، 10 ذوالحجہ سنت ابراہمیی کے طور پر منائی جاتی ہے ۔ جبکہ سال کے پہلے مہینے کی 10 تاریخ بھی خون سے کشید ہے ۔ ماہ محرم قبل از اسلام بھی معتبر تصور کیا جاتا ہے اس میں عرب جنگ و جدال سے پرہیز کرتے تھے ۔ اور اسلام نے بھی 4 اسلامی مہینوں حرمت والے مہینہ کہا کہ ان مہینوں میں جنگ سے پرہیز کیا جائے ۔
یہ تو وہ سب کچھ تھا جو آپ جانتے ہیں ، آپ نے سن رکھا ہے ، لیکن دو چیزیں قابل غور و قابل مشاہدہ ہیں کہ حسین ، اصحاب حسین اور دیگر مسلمانوں میں فرق کیا تھا ، حسینیت اور مسلمانیت میں یقنا فرق ہے ۔ جب سال کے آخری مہینے ذوالحجۃ کو دنیا بھر کے مسلمان سفید ملبوس میں کعبۃ اللہ کی حج کےلئے پہنچ رہے تھے عین اس وقت حسین علیہ السلام نے کعبۃ اللہ چھوڑ دیا ، کیوں چھوڑا کیا حج ارکان اسلام کا اہم ترین رکن نہیں ؟ کیا حج جیسی کوئی عبادت بھی ہے ؟ یقینا ہے ورنہ حسین جیسی خدا شناس ہستی خدا کے گھر کو کیسے چھوڑ سکتی ہے ؟
خدا وند کریم فرماتے ہیں کہ عبادت صرف یہ نہیں یہ تم مشرق و مغرب منہ کر کے کھڑے ہو جاو، سورۃ العصر میں خدا وند کریم فرماتے ہیں (اِلَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ) سورۃ العصر میں یہ جو الصالحات کا ذکر کیا گیا یہی تو وہ بات ہے کہ اسلام کے دائرے میں اپنی نظر اتنی دقیق رکھی جائے کہ پتہ چلے کہ کس وقت کونسی نیکی اور کونسا عمل ضروری ہے ۔
صرف حسین مان لینا ہی کافی نہیں حسین کا منصب و مقصد ماننا ضروری ہے ۔ لوگ کہتے ہیں ہم حسین کو مانتے ہیں پوچھا جائے کیا مانتے ہیں تو آگے سے چپ یا کہتے ہیں انکو صحابی رسول ، نواسہ رسول مانتے ہیں ۔ لیکن کیا صرف یہ مان لینا کافی ہے ۔۔ یہ تو یزیدی فوج بھی مانتی تھی ، یہ تو کوفہ والے بھی مانتے تھے ، پھر بھی حسین کو قتل کیا گیا، پھر بھی حسین علیہ السلام کو دھوکہ دیا گیا ۔
دوسری بات یزید سے اظہار برات کیوں کی جائے ، کیوں یزید کو برا سمجھا جائے ، کیا اس وجہ سے کہ اس نے خانوادہ رسول کو قتل کروایا ، اور دختران پیغمبر کو قیدی بنا کر کربلا سے شام تک لایا ، اگر صرف یہی وجہ ہے تو معذرت کے ساتھ کہنا پڑے گا اپنی معرفت کو بلند کیجئے ؟ جاننے کی کوشش کیجئے کہ حسین علیہ السلام کو یزید سے کیا مخالفت تھی وہ کیا وجہ تھی کہ حسین علیہ السلام یزید کے خلاف برسرکار پیکار ہوئے ؟ حسین یزید کے خلاف اسلیے نہیں تھے کہ جس وجہ سے آپ لوگ ہیں ۔
اگر ہم یزید کو اس لیے برا تصور کرتے ہیں کہ یزید شراب پینے والے ، محرم رشتوں سے شادی جائز سمجھنے والا تھا تو یقین کیجئے مغرب والے یزید کو modernist کہیں گیں۔ کہ آج سے 14 سو سال پہلے یزید وہ سب جائز سمجھتا تھا جس کی آج مغرب تروجیج کر رہا ہے ۔
حسین علیہ السلام کی یزید کے خلاف ہونے کیوجہ تھی حدود اللہ کا انکار کرنا ، اسلام کا تشخص بگاڑنا ، خدا کے حلال و حرام کی حدود کو ختم کرنا ،61 ہجری میں امام حسین علیہ السلام نے ان الفاظ کے ساتھ مدینہ چھوڑا کہ ”میں صرف اپنے جد کی امت کی اصلاح کی غرض سے نکل رہا ہوں” ۔ چند اصحاب کے ساتھ حسین علیہ السلام کا جہاد جو رہتی دنیا تھا یاد رہے گا اسکا اثر صرف یہ ہوا کہ نوک سناں پر حسین سربلند ہو گیا اور منبر کے سب سے اوپر والے زینہ پر براجمان یزید و ابن زیاد تا قیامت سرنگوں ہو گئے ۔
بس سوچیئے آپ کس لشکر میں ہیں ؟ حسینی کے ساتھ یا یزید کے ساتھ اور اگر حسین نے اب چراغ بجھا دئیے تو کیا بیٹھے رہو گے یا پھر دولت کی چمک دمک تمہاری آنکھیں خیرہ کر دیں گی اور تم آخری رات خیمہ حسین سے لشکر یزید میں منتقل ہو جا و گے ، دیکھو حر بنا کے دکھاو ،
حسین علیہ السلام نے فرما یا یا اللہ جیسے تو مل گیا اس نے کیا کھویا اور جس نے تجھے کھو دیا اس نےکیا پایا ؟ آپ اپنے ہاتھ دیکھئے آپ کو کیا مل رہا ہے اور آپ کیا کھو رہے ہیں ، حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ گرے (Gray ) ایریا Shrink ہوتا جارہا ہے ۔ لوگ یا تو دیندار ہوتے جا رہے ہیں یا پھر دنیا دار۔ آپ یا تو سفید سائیڈ پر ہیں یا پھر کالے حصہ میں ۔۔
فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ اما م حسین کو صرف نواسہ رسول سمجھنا ہے یا پھر امام سمجھنا ہے کیونکہ فرق واضح ہے کہ تو امام یزید یا پھر حسین علیہ السلام ۔۔ اگر آپ خود کو ماڈرن مسلمان بنانے لگ گئے تو یہ ڈر ہے کہ کہیں صف یزید میں نہ کھڑے ہو جائیں ۔ اپنا محاسبہ کیجئے ، اپنے مقام و منزلت کو واضح کیجئے ، ذرا سوچئے !
Comments are closed.