الیکشن کیسے ہوئے؟
شمشاد مانگٹ
الیکشن کمیشن آف پاکستان بہترین انتخابات کروا کر بھی اپنی غفلت اور لاپرواہی کے باعث بدنامیاں سمیٹ رہا ہے۔25 جولائی کی شب جب پوری قوم انتخابات کے نتائج کی منتظر تھی تو عین اس وقت الیکشن کمیشن کا متعارف کروایا جانے والا رزلٹس ٹرانسمیشن سسٹم بیٹھ گیا اور انتخابات کے نتائج کا بوجھ برداشت نہ کرسکا۔چیف الیکشن کمشنر یا سیکرٹری الیکشن کمیشن کو اسی وقت ”فرنٹ فٹ“ پرآکر قوم کو بتانا چاہئے تھا کہ ہمارا سسٹم نتائج کے بوجھ سے جام ہوگیا ہے اور یہ کہ قوم کے ”پیارے“امیدواروں کے نتائج سابقہ مینوئل طریقے سے فراہم کرنا شروع کردئیے ہیں۔لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تمام بڑے الیکٹرانک میڈیا کے خوفناک پراپیگنڈے سے گھبرا کر بیٹھے ہوئے سسٹم کے اوپر خود بھی بیٹھ گئے اور قوم کو بے رحم میڈیا کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔
رزلٹس ٹرانسمیشن سسٹم کی حقیقت یہ ہے کہ 2013ء کے بعد جتنے بھی ضمنی الیکشن ہوئے ان میں اس سسٹم کو آزمایا گیا۔
اگر چہ ضمنی الیکشن کے نتائج اس سسٹم کے ذریعے بروقت پہنچائے گئے لیکن الیکشن کمیشن کا ریکارڈ گواہ ہے کہ ملک کے سینئر اور ماہر ریٹرننگ آفیسرز نے اس سسٹم پر عدم اعتماد بھی کیا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو سفارشات بھی بھجوائیں کہ موجودہ سسٹم عام انتخابات کے نتائج فراہم نہیں کر پائے گااور قومی اسمبلی کے ساتھ صوبائی اسمبلیوں کے نتائج جب آنا شروع ہونگے تو یہ نظام ”ہینگ“ ہوجائے گا لیکن محترم چیف الیکشن کمشنر اور سیکرٹری الیکشن کمیشن نے اس سٹسم پر انحصار کرنے کا عزم ظاہر کیا اور 25جولائی کی شب سسٹم بھی بے بس تھا اور پورا الیکشن کمیشن بھی لاچار تھا۔
قومی وصوبائی اسمبلی کے تمام حلقوں میں ہر ضلع کے ریٹرننگ آفیسران کے پاس نتائج رات بارہ بجے تک پہنچ چکے تھے لیکن آر ٹی ایس کے تحت پریزائیڈنگ آفیسرز اور اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسرز نتائج اپنے ہاتھ میں لئے قطار اندر قطار کھڑے ہوئے تھے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ریٹرننگ آفیسرز کی طرف سے یہ بھی بتایاگیا ہے کہ جتنے الیکشن صاف اور شفاف تھے اس سے زیادہ گندی گالیاں اور بددعائیں پریذائیڈنگ آفیسران اور اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسران کو دیتے ہوئے دیکھا گیا کیونکہ انہیں7000 اور45000 روپے ایک دن کا معاوضہ دینے کیلئے کہا گیا تھا لیکن ان سے کام تین دن لیا گیا اور پھر زبردست کام کرنے کے باوجود جب پوری رات انہیں آر ٹی ایس کیلئے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا پڑا تو اکثریت نے دل کی بھڑاس گالیوں اور بددعاؤں کے ذریعے نکالی۔
آر ٹی ایس کے حوالے سے 16جولائی کو ریہرسل بھی اسلام آباد میں کروائی گئی تھی اور اس ریہرسل میں بھی ریٹرننگ آفیسران نے یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ یہ نظام اس وقت ناکام ہوجائے گا جب پورے ملک سے نتائج کی بھرمار ہوجائیگی لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان اعتراضات کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ اس آر ٹی ایس کی تنصیب میں غیر ملکی امداد شامل تھی لہٰذا اس غیر ملکی امداد کو”حلال“ کرنے کیلئے آر ٹی ایس پر زبردستی انحصار کیا گیا اور صاف وشفاف الیکشن کو کچھ گندی مچھلیوں نے ”گدلا“ کردیا۔
حالانکہ فافن کی رپورٹ اور غیر ملکی مبصرین کی رپورٹس بتا رہی ہیں کہ حالیہ الیکشن نہ صرف شفاف تھے بلکہ2013ء کے الیکشن سے بہت بہتر تھے۔البتہ آر ٹی ایس کے نفاذ نے ایک طرف ہارنے والے امیدواروں کو جھوٹے پروپیگنڈے کا موقع دیا بلکہ دوسری طرف آئندہ کیلئے پریذائیڈنگ آفیسران اور اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسران کو یہ ”سبق“ بھی دیدیا کہ وہ یہ بھاری ذمہ داری معمولی معاوضے کے بدلے میں نہ اٹھایا کریں کیونکہ الیکشن کے بعد زیادہ تر پریذائیڈنگ افسران اور دوسرا عملہ خود سے یہ عہد کرتا ہوا نظر آیا کہ وہ آئندہ یہ ذمہ داری قبول نہیں کریں گے۔
الیکشن کمیشن کے ایک ذمہ دار آفیسر نے بتایا ہے کہ عام انتخابات سے پہلے ہر ضلع میں یہ شکایت سامنے آرہی تھیں کہ زیادہ سرکاری ملازم پریذائیڈنگ آفیسرز اور اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسرز کی ذمہ داریاں نہ نبھانے کیلئے بڑی بڑی سفارشیں کروا رہے تھے۔الیکشن کمیشن کے مقامی ذمہ داران نے ذمہ داریاں ادا کرنے کیلئے سٹاف کے سامنے ہاتھ باندھ باندھ کر التجائیں بھی کی تھیں کہ ملک وقوم کیلئے ایک دن وقف کردیں۔ایک دن کی محنت سے ہوسکتا ہے کہ ملک کی تقدیر بدل جائے اور الیکشن کمیشن کے عہدیداروں کی اس التجا پر کافی سرکاری ملازمین نے لبیک بھی کہا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ سخت گرمی اور ناکافی سہولتوں کے ہوتے ہوئے الیکشن کے انعقاد کیلئے جو ذمہ داریاں نبھانے والے لوگ سب کے سب سلیوٹ کے قابل ہیں اور چیف الیکشن کمشنر کو بذات خود ایک کنونشن بلا کر انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہئے اور آئندہ کیلئے یقین دہانی کروانی چاہئے کہ آرٹی ایس کو آئندہ الیکشن تک مؤثر اور بہتر کرلیا جائے گا وگرنہ اگلی مرتبہ الیکشن رضا کار بھی کروانے پر تیار نہیں ہوں گے۔
الیکشن کمیشن نے دھاندلی کا آخری شبہ تک ختم کرنے کیلئے فی پولنگ اسٹیشن ووٹوں کی تعداد2000 سے کم کرکے1200کردی تھی اور اوسطاً فی پولنگ اسٹیشن 700 ووٹ کاسٹ ہوئے لیکن انکو فوری طور پر آر ٹی ایس کے ذریعے الیکشن کمیشن تک پہنچایا نہیں جاسکا۔اس کے علاوہ پورے ملک میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوا کہ پولنگ ایجنٹس کو ہاتھ کے ساتھ لکھ کر دئیے گئے ووٹوں کی تعداد اور آر ٹی ایس کے ذریعے لکھے گئے ووٹوں کی تعداد میں فرق سامنے آیا ہوا۔پھر بھی اگر کوئی کہتا ہے کہ کہ دھاندلی ہوئی ہے تو اس کیلئے مشورہ ہے کہ وہ جاکر اپنی بھینس چرائے۔
Comments are closed.