دوسری فحش تحریر۔ ۔۔خواتین سے معذرت کے ساتھ
وقار حیدر
مجھ میں جو بُرائیاں ہیں وہ اس عہد کی بُرائیاں ہیں۔۔۔ میں تہذیب و تمدن کی اور سوسائٹی کی چولی کیا اُتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔ میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا کہ یہ میرا کام نہیں درزیوں کا ہے۔ لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں لیکن میں تختہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا ۔ سفید چاک استعمال کر تا ہوں کہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور بھی نمایاں بھی ہو جائے۔( دیباچہ ’’منٹو کے افسانے‘‘سے اقتباس)
شروع میں سعادت حسن منٹو صاحب کی یہ تحریر اس لیے پیش کی گئی ہے کہ ہم بھی معاشرے کی بیماروں کو اجاگر کرتے ہیں، ان کو چولی پہنانے کا کام ہمارا نہیں، اور اسے میں کیسے بچاوں جو ڈوبنا چاہے، منٹو صاحب نے تختہ سیاہ کی بات کی تھی لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے اب تختہ سفید ہو گیا اور سیاہی ہم خود پھیلاتے ہیں اور معاشرے کا بے رحمانہ و بے حیا پن سیاہی کے ساتھ جلی حروف میں لکھتے ہیں۔
آپ نے سن رکھا ہے کہ دال میں کچھ کچھ کالا ہے لیکن یقین کیجئے اب دال ساری کی ساری کالی ہو گئی ہے اس میں کچھ کچھ سفید ہے، ہم نے چند روز قبل “ایک فحش تحریر” میں معاشرے میں جاری، ایک نئی بے راہ روی کی پنپتی صورتحال کی جانب احباب کی توجہ مبذول کرائی تھی، معاشرے میں بڑھتی اس برائی میں مرد کے کردار پر کاری ضرب لگآئی گئی تھی، ایسے موضوع پر آواز اٹھانے کےلئے جہاں سراہا گیا وہاں پر نشانہ تنقید بھی رہے ہم، لیکن زیادہ احباب کی رائے یہی تھی کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پس دیوار کے قصے سر دیوار لکھے جائیں۔
جدید نظام تعلیم کےساتھ ساتھ ہر چیز میں جدت آئی ہے، جدید جنسی طریقے بھی روز بروز ایجاد کیے جا رہے ہیں، جنسی لذت و سکون کے لئے نت نئے طریقوں کو معاشرے میں وارد کیا جا رہا ہے، ہم نے جنسی عمل کے کچھ نئے طریقوں پر بات کی تھی جو ہمارے معاشرہ میں سرائیت کر کے گھریلو زندگیوں میں زہر گھول رہے ہیں،
اس لت کا شکار نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی ہیں، جہاں مردوں کی بڑی تعداد جنسی فلمیں دیکھتی ہے وہیں پر خواتین بھی کچھ کم نہیں، کہا جاتا ہے کہ خواتین میں جنسی عمل میں دلچسپی مرد سے نسبت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے، تو یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے، خواتین جو ایسے فلیمں دیکھتی ہیں وہ اپنے ہونے والی شوہروں سے بھی ایسے ہی عمل کی توقع رکھتی ہیں، جن میں ایک بار پھر اوورل سکس سر فہرست آتا ہے۔
جب اس معاشرہ کے مرد ایسی حرکات سے نہ صرف کراہت اختیار کرتے ہیں بلکہ اس پر شدید رد عمل دیتے ہیں تو وہ شادی شدہ خواتین اپنی تسکین کےلئے باہر کا رخ کرتی ہیں اور دوسرے مردوں سے تعلقات استوار کرتی ہیں،، حال ہی میں پڑوسی ملک بھارت میں اسی حوالے فلم ” بی اے پاس” بھی منظر عام پر آئی ہے، گذشتہ روز ڈی آئی خان کا واقعہ سامنے آیا جہاں رات کو واک کرتے ہوئے ایک نوجوان کے ساتھ ایک خاتون نے آکر گاڑی روکی اور اسکو اپنے ساتھ لے گئی۔
اس کے بعد جنسی لذت کے جو عمل نوجوان کے وہم و گمان میں نہ تھے وہ زبردستی کرائے گئے انکو زیر تحریر لانا ہی ممکن نہیں، جبکہ شہر اقتدار سے شہر قائد تک کی ایسی کئی خواتین جنسی لذت کی خاطر تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں، ایک نئی صورتحال جو آج کل دیکھنے کو مل رہی ہے سوشل میڈیا پر ( couple sex ) کی ہے، جوڑے دوسرے جوڑوں کے ساتھ ملکر یہ عمل سرانجام دے رہے ہیں ایک کا بوائے فرینڈ یا شوہر دوسرے کی گرل فرینڈ یا بیوی کے ساتھ۔
آپ کو جڑواں شہروں میں ایسی کئی ایک آئی ڈیز ملیں گی جو اس عمل کےلئے ہمہ وقت تیار ہوتی ہیں نہ صرف تیار بلکہ دوسروں جوڑوں کو دعوت میں مصروف عمل نظر آتی ہیں۔ اور تو اور کچھ دلدادہ شادی شدہ خواتین 4 یا 5 مردوں کے ساتھ ایک ہی وقت میں جنسی عمل انجام دینے کی خواہش بھی رکھتی ہیں
کچھ خواتین اس عمل کو خوشی خوشی قبول کرتی ہیں اور جنسی لذت کےلئے اپنے ہمسفر کے ساتھ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں. ان کا کہنا ہے کہ جنسی عمل میں زبردستی نہیں ہونی چاہیے لیکن باہمی مشاورت و رضا مندی سے کوئی بھی عمل کرنا نہ تو غیر اخلاقی ہے نہ ہی غیر شرعی، چند روز پہلے ایک پلیٹ فارم پر ایک تحریر نظر سے گزری۔ بستر میں تشدد کے حوالے سے تھی، اس جانب قارئین میں سے بھی ایک فرد کی جانب سے توجہ دلائی گئی کہ اسلام میں صرف دبر میں وطی کرنا جائز نہیں۔
ان کا مطلب تھا Anal sex لیکن یہ بھی ہمارے معاشرہ کا حصہ بنتی جا رہی ہے، پورن دیکھنے والی ایک یونیورسٹی کی لڑکی کے الفاظ تھے میرا ہونے والا شوہر اگر چاہے تو بالکل شوق سے یہ عمل سرانجام دینے کو حاضر ہوں، ایک ڈاکٹر کے مطابق اس عمل سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ اینل سیکس کے جراثیم آپ کے بچوں میں سرایت کر جاتے ہیں اور بجے خاص کر لڑکے ہم جنس پرستی کی جانب راغب ہوتے ہیں، دوسرا اسلام میں بھی اس عمل سے روکا گیا ہے
کہا جاتا ہے بچے دو ہی اچھے۔ صاحب اسطاعت اور صاحب ثروت لوگ ہیں اس پر عمل کرتے ہیں باقی عوام لذت کی خاطر بچے نو (9) ہی اچھے کی طرف رغبت رکھتے ہیں۔ جنسی عمل میں لذت کا خاصہ بھی صرف صاحب مال افراد کےلئے ہی ہے جو ان نت نئے طریقوں سے جنسی عمل کو سرانجام دیکر محظوظ ہوتے ہیں۔ اتنا کہنا کافی ہوگا کہ صاحب ثروت لوگ مزے لیتے ہیں اور غریب بچے پیدا کرتے ہیں۔
Comments are closed.