وزیر اعظم کے لیے
عزیر احمد خان
وقت کے بھی اپنے ہی رنگ ہوتے ہیں ،مگر شخص وہ ہی کامیاب ہوتا ہے جو وقت کیساتھ ساتھ اس کے رنگ میں ڈھل جائے ۔وقت وقت کی آواز کو نہیں سمجھتا وقت اسے روند کر گزر جاتا ہے اور وہ کف افسوس ملتا رہ جاتا ہے ۔آج اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔وہ گلی گلی ،محلے محلے ،شہر شہر پھر رہا ہے مگر بروقت فیصلہ نہ کرنے پر سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا اور اب بھی مناسب اقدام نہ اٹھانے کی وجہ سے جو بچا کچھا ہے وہ بھی نکلتا جارہا ہے ۔
ہمیں بہت اچھی طرح یاد ہے یہ زیادہ پرانا نہیں سال ڈیڑھ سال قبل کی بات ہے جب ہم نے ان ہی سطور میں اس وقت کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والے میاں نوازشریف کو کلیدی مشورے دئیے تھے ۔مگر انہیں کچن کیبنٹ نے گھیر رکھا ہے ۔اور ”جی جی بریگیڈ “ سب اچھا کی رپورٹ دینے کے علاوہ ”سر بہت اعلیٰ ،سر بہت اعلیٰ“ کی گردان کی رٹ لگائے ہوئے تھا ۔پانامہ کیس عروج پر تھا ،حالات آئے دن دگرگوں ہوتے چلے جارہے تھے ہر روز ایک نئی خبرتھی جو حکومت کے گِٹے گوڈوں میں بیٹھ رہی تھی ۔ایسے میں ایک نہیں تین چار ہم نے مشورے دئیے ۔
ایک بہت ہی زیرک نظر ،فہم وفراست اور آنے والے حالات پرنظر رکھنے والے اور وژن کے حامل ہمارے پیارے سینئر برادرم امتیاز صاحب ہیں ۔اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارے یہ دوست سیاسی دنیا میں پہنچے ہوئے ہیں تو غلط نہ ہوگا ۔وہ سال ڈیڑھ سال قبل ہم سے گویا ہوئے تھے کہ یار عزیر اس وقت جو مسائل درپیش ہیں ان کا واحد حل ایک ہی ہے کہ میاں نوازشریف قبل از وقت انتخابات کرانے کا اعلان کردیں ۔عوام ان کو دوبارہ منتخب کرلے گی اور اس وقت جو گرد اٹھ رہی ہے وہ بھی بیٹھ جائے گی میاں صاحب پھر سرخرو ہوجائیں گے ہم نے بھی حالات کو دیکھتے ہوئے بات کی گہرائی میں جاکرسوچا تو مشورہ وژن والا تھا ۔
اس سے قبل بھی ہم میاں صاحب سے ان ہی کالموں کے ذریعے کچھ گزارشات کرچکے تھے مگر اس پر کوئی عمل نہ کیا گیا پھر خمیازہ سب کے سامنے ہے ۔اس وقت میاں صاحب اونچی اڑان بھررہے تھے وقت ہاتھ سے نکلتا گیا پھر ایسا ہوا کہ انہیں وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے ۔اس کے بعد میاں صاحب جی ٹی روڈ پر نکل پڑے اور ”مجھے کیوں نکالا “ کا بیانیہ متعارف کرادیا ۔اگر ہمارے مشورے پر عمل کرلیتے تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ۔نہ حکومت جاتی ،نہ شہرشہر خوار ہونا پڑتا ۔اس وقت جو حالات درپیش ہیں اِن کے تحت ہم موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی ایک سنہرا مشورہ دینا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ وقت تقاضا ہے کہ ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی جائے ۔
ہر سیاسی رہنما اپنے آپ میں ایک نعرہ موجزن رکھتا ہے ۔کوئی نیا پاکستان بنا رہا ہے ،کوئی پنجاب میں نیا صوبہ بنا رہا ہے ،کوئی کراچی کو پیرس اور کے پی کے کو لاہور جیسا بنانے کا کہہ رہا ہے ۔مگر حقیقت کیا ہے اس پر کوئی دھیان نہیں دے رہا ۔کبھی چھانگا مانگا کی سیاست عروج پرتھی ۔مگراس وقت لوٹا ازم عروج پر ہے ۔ہمارا ان سیاسی نعرہ لگانے والوں سے سوال ہے کہ کیا خاک تبدیلیاں ہوںگی ۔لوگ وہ ہی ہیں ،جو ادھر ادھر جارہے ہیں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا ۔گذشتہ روز جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس نوشتہ دیوار ہے ۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہماری پاک فوج نے ملک وقوم کیلئے جتنی قربانیاں دی ہیں اتنی کسی نے نہیں دیں ۔ان کو ٹارگٹ بنانا اور ایسے الفاظ استعمال کرنا جن کا ان سطور میں استعمال انتہائی نامناسب ہے ۔
پہلے ایک بیان دیا گیا جس کو بھارت نے سینگوں پر اٹھایا ہوا ہے اور اب سونے پر سہاگہ جاوید ہاشمی نے تو کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی ۔انہوں نے بھی پاک فوج کو صفر سے ضرب دے کر صفر ہی کردیا ہے ۔جب کہ ملک میں آپریشن رد الفساد جاری ہے ،سرحدوں پربھی غیر یقینی صورتحال ہے ۔ان سب کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کردی جائے ۔تب ہی حالات سدھر سکتے ہیں ۔نہ کوئی تبدیلی آئی ،نہ کچھ ہوگا ،وہی چہرے ہیں جو پانچ سال تک اقتدار میں رہے اور ہوا دیکھ کر ادھر ادھر جارہے ہیں جو پانچ سال میں کچھ نہ کرسکے وہ آئندہ بھی کیا تبدیلی لائیں گے ۔لہذا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ہاتھ میں گیم ہے ۔وہ وقت کو ضائع نہ کریں ابھی جو بارہ ،تیرہ دن رہ گئے ہیں اس میں فیصلہ کرلیں ۔ایسا نہ ہو کہ نوازشریف کی طرح پچھتانا پڑے ۔کیونکہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے وزیراعظم کی پریس کانفرنس پر خاص حلقوں کو تحفظات ہیں ۔وقت گزرنے کے بعد ان تحفظات کا مقابلہ کرنا مشکل ہوجائیگا ۔
ابھی تک شاہد خاقان عباسی نے ٹیکس نیٹ اور ایمنسٹی سکیم کے حوالے سے بہتر فیصلے کیے تھے اگر ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے بھی بروقت فیصلہ کرلیتے ہیں تو بہتر نتائج نکلیں گے تاکہ جو بھی سیاستدان لوٹے بنے ہیں وہ سال بھر ادھر ادھر لڑھکتے رہیں اور ملکی حالات بھی بہتر ہوجائیں گے اس کے بعد انتخابات ہوں تو بہتر نتائج نکلیں گے ہمارا تو فرض تھا ۔نوازشریف کو بھی مشورہ دیا تھا اب شاہد خاقان عباسی صاحب کو بھی مشورہ دے رہے ہیں عمل ان کے ہاتھ میں ہے ورنہ نتائج وقت کے ہاتھ میں ہوںگے ۔
Comments are closed.