بابا ! میں ہارا نہیں
نصر اللہ شجیع کا نام شاید بہت سے لوگ نہ جانتے ہوں لیکن تاریخ میں اس کا نام زندہ رہے گا، ایک ایسے استاد کے طور پر جس نے دریائے کنہار کی تیز لہروں کو شکست دے دی، نصر اللہ شجیع اپنے سکول کے بچوں کے ساتھ بالاکوٹ کا دورہ کررہے تھے۔ ایک بچہ دریا میں گر گیا۔
نصر اللہ شجیع جانتے تھے وہ ان تیز لہروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن کنارے پر کھڑے ہو کر صرف شور مچاناان کی توہین تھا۔ وہ خود بھی اپنے طالبعلم کے ساتھ ڈوب گئے لیکن دریائے کنہار کی تیز لہریں پھر بھی ان سے ہار گئیں کیونکہ وہ ڈرا نہیں گھبرایا نہیں اور لہروں کا غرور توڑ گیا۔
گجرات کی وہ خاتون ٹیچر جو آگ لگی وین سے خودکود کر اپنی جان بچا سکتی تھی لیکن وہ اس وین سے طلبہ کو نکالنا چاہتی تھی۔ ایک بچہ اس وین حادثہ میں بچ پایاوہ ٹیچر ان بچوں سے لپٹ کر امر ہو گئی، خود تو زندہ نہیں رہی لیکن پھر بھی وہ اس آگ سے جیت گئی کہ وہ آگ کی ان تیز لپکتی لہروں سے خوفزدہ نہیں ہوئی۔
اے پی ایس میں جب دہشت گرد معصوم بچوں کو نشانہ بنا رہے تھے،خوف کی فضا تھی ایسے میں ایک خاتون ٹیچر دہشت گردوں کا راستہ روک کر کھڑی ہوتی ہے، للکار کر کہتی ہے میری لاش پہ سے گزر کے ہی تم میرے بچوں تک پہنچ سکو گے۔
ان بدبخت دہشت گردوں نے اس خاتون پرکیمیکل پھینک کر اسے آگ لگا دی، گولیاں ماریں۔۔ وہ گولیاں کھا کر، کیمیکل سے جھلس کر وہیں ڈھیر ہو گئی لیکن وہ دہشت گرد ہار گئے کیونکہ وہ خاتون ان کی گولیوں اور کیمیکل سے ڈری نہیں ۔۔ وہ مر کر بھی جیت گئی اوروہ دہشت گرد اتنی لاشیں بچھا کر بھی ہار گئے۔
اے پی ایس کی وہ بہادر پرنسپل طاہرہ قاضی جنہیں حملہ کے بعد دو مرتبہ بحفاظت سکول سے باہر لایا گیا مگر وہ بچوں کو باہر چھوڑ کر خود واپس سکول چلی گئیں، وہاں موجود سیکورٹی والوں نے انہیں منع کیاکہ اندر جانا خطرناک ہو گا۔
پرعزم طاہرہ قاضی کا کہنا تھا جب تک میرا آخری بچہ باہر نہیں آتا میں بھی باہر نہیں آؤں گی۔ بعد ازاں ان کی لاش جھاڑیوں سے ملی، ان کے سر میں گولی لگی تھی۔ اس چہرہ کا غرور یہ کہہ رہا تھا وہ گولی ہار گئی اور طاہرہ قاضی جیت گئیں کیونکہ ان گولیوں نے انہیں شکست نہیں دی۔آج بھی ان کی قبر پر پھولوں کے نذرانے اس کا ثبوت ہیں۔
ابھی اپنے دوست خالد گردیزی کے ذریعہ معلوم ہوا کہ آزاد کشمیر کی وادی نیلم میں جہاں پنجاب سے آئے طلبہ نالہ کٹن کے اوپر معلق پل پرچڑھ کر تصویریں بنوانے کے دوران جب پل ٹوٹ گیا۔ بچوں اور بچیوں کی چیخیں بلند ہوئیں تو لوگ متوجہ ہوئے۔
وہاں ان کے ساتھی طلبہ و طالبات کے علاوہ بھی ڈھیروں لوگ کنارے پر موجود تھیلیکن چند لوگ ہی مدد کے لیے آگے بڑھے۔ رسی ڈالی گئی اور ایک نوجوان اس رسی کو لپیٹ کر اس میں اترا، اس نے لوگوں کی جانیں بھی بچائیں۔۔ ایسے میں کسی کی نظر بھی نہ پڑی کہ ایک دس بارہ برس کا بچہ صائم بھی ان تیز لہروں کو چیلنج کرتا ہوا پانی میں کودا۔
صائم کا باپ شفاعت اس تفریحی مقام پر پکوڑے فروخت کرتا ہے۔ یہ ننھا بچہ اپنے باپ کی مدد کرتا تھا، بھاگ بھاگ کر گاہکوں کو گرما گرم پکوڑے پہنچانا، کسی کے چٹنی مانگنے پر جی باجی ابھی لایا۔ اس ننھے بچے کی زندگی ایسے ہی گزر رہی تھی۔
اس نے گاہکوں کی عزت کرنا سیکھا تھا۔ وہ کیسے دیکھ سکتا تھا کہ جن گاہکوں کے دم سے رونق تھی وہ گاہک پانی کی لہروں میں کھو جاتے۔ اس نے لہروں کو للکارتے ہوئے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ پہلی کوشش میں وہ ایک بے ہوش لڑکی کو کنارے پر لایا۔
سانس بحال ہونے کا انتظار بھی نہیں کیا کیونکہ اسے ایک اور بے ہوش لڑکی دکھائی دی۔ اس نے فوراً دوبارہ پانی کے اندر چھلانگ لگا دی۔ شفاعت اپنے بچے کے دوبارہ اوپر آنے کا انتظار کرتا رہا لیکن اس کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ وہ اوپر جب آیا تو سانسوں کا جسم سے ناطہ ٹوٹ چکا تھا۔
چہرے پر اطمینان اور فخر تھا جیسے اپنے باپ کو کہہ رہا ہو، بابا۔ میں نے لہروں کو شکست دے دی۔ میرے جسم میں روح نہ رہی تو کیا ہوا، میرا جذبہ تو توانا ہے۔ میرے چہرے کا اطمینان یہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ میں نے ہار نہیں مانی۔
واقعی لہروں کی کیا مجال کہ جذبوں کو ڈبو سکیں۔ جذبے جیت جاتے ہیں۔ پانی کیلہریں ہوں، آگ ہو، طوفان ہو، کیمیکل ہو یا گولی۔۔۔ یہ سب ہتھیار جذبوں کے آگے سرد پڑ جاتے ہیں۔
صائم شفاعت کے حوالہ سے خالد گردیزی کی پوسٹ نے مجھے نصر اللہ شجیع سے لے کر محترمہ طاہرہ قاضی تک سب کی شان یاد دلائی ۔ یہ سب عظیم لوگ تھے جنہوں نے ایک جذبہ دکھایالیکن معصوم بچے صائم کا جذبہ مجھے سب سے جدا دکھا ئی دیتا ہے۔
یہ سب شعور والے لوگ تھے، یہ ایسا ننھا بچہ تھا جو شعور کی اس منزل پر نہیں پہنچا تھا جو صحیح اور غلط کا بتائے۔ وہ کھڑا رہتا تو بھی کبھی کسی نے اس سے یہ نہیں کہنا تھا صائم تو نے انہیں بچانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟۔ لیکن اس نے اتنا بڑا فیصلہ کر لیااور اس کے باپ نے اسے روکا بھی نہیں۔
خالد گردیزی کہتا ہے 2005 کے قیامت خیز زلزلہ میں کشمیری جب دکھوں میں گھرے ہوئے تھے، رمضان کے مہینے میں پاکستانیوں نے دل کھول کر ان کی مدد کی۔ ننھے صائم نے کشمیریوں کا وہ قرض چکا دیا۔ میرے دل سے اچانک آواز آئی۔۔ کہ ننھے صائم نے وہ قرض چکایا ہے جو اس پہ واجب بھی نہیں تھا۔
شہریاریاں ۔۔۔۔ شہریار خان
Comments are closed.