بیانیئے سے اعلامیئے تک
شمشاد مانگٹ
میاں نواز شریف کے ملکی سلامتی پر کھلم کھلا حملے کے بعد ان کی اپنی ہی حکومت بری طرح گرداب میں پھنسی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اگر میاں نواز شریف کی ”ہرزہ سرائی“ کو سپورٹ کرے تو بھارت کے الزامات کو بھرپور مدد ملتی ہے اور اگر ملک اور ریاست کو سپورٹ کرے تو پھر میاں نواز شریف کی ”محبت“ ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ حالانکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اگر اقتدار کے باقی 15 دن کو ٹھوکر مار کر قومی سلامتی کے اداروں کی کھل کر حمائت کا اعلان کردیں تو ان کا سیاسی مستقبل ہمیشہ کیلئے ”محفوظ“ ہوسکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کے کارکنوں کا بھرم بھی بچ جائے گا۔
میاں نواز شریف کے ”مودیانہ“ بیان کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب نے مسلم لیگ (ن) کے اندر سب سے پہلے اپنے سیاسی مستقبل کی ”فکر“ محسوس کرتے ہوئے نہ صرف افواج پاکستان کو عظیم قرار دیا ہے بلکہ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ میاں نواز شریف کا بیان پارٹی پالیسی نہیں ہے۔ گزشتہ سات دن میں میاں شہباز شریف نے دوسری بار اپنے بڑے بھائی سے اختلاف بھی کیا ہے اور ہٹ کر پالیسی بھی بیان کی ہے ۔ کچھ روز پہلے جب میاں نواز شریف کو خلائی مخلوق نظر آئی تھی تو میاں شہباز شریف نے خلائی مخلوق کی عدم موجودگی کی اطلاع دی تھی جس پر میاں نواز شریف نے ان کی ”کلاس“ بھی لی تھی۔ میاں نواز شریف کے اجمل قصاب بارے تازہ بیانیہ سے یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ آئندہ انتخابات میاں نواز شریف کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ محنت وہ کریں اور اس کا پھل میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف ‘ چوہدری نثار علی خان کے ساتھ مل کر کھائیں۔ میاں نواز شریف کے بیانیہ کا رنگ صرف اسی صورت بدل سکتا ہے جب انہیں اس بات کا یقین ہوکہ مستقبل میں وزارت عظمیٰ کا عہدہ مریم نواز کے پاس ہوگا اور وزیراعظم ہاؤس کا ”مردِ اوّل“ کیپٹن صفدر ہوگا۔ اسی لئے محترمہ مریم نواز نے اپنے والد کے مؤقف کو دہرایا ہے۔
دو ہفتے پہلے جب سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر فائرنگ کا واقعہ ہوا تھا تو مسلم لیگ (ن) سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ انتخابات میں چند ماہ باقی ہوں اور شریف برادران کسی جج کو ٹارگٹ کرکے عوام کی ہمدردیاں کھو دیں۔ میاں نواز شریف کے بھارت نواز بیانیہ کے بعد مسلم لیگی راہنماؤں اور کارکنوں کو اب یقین ہو جانا چاہیے کہ ان کا لیڈر اگر قومی سلامتی کے اداروں پر الفاظ کی فائرنگ کر سکتا ہے تو جج کے باورچی خانے میں دو گولیاں مارنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ حالانکہ الیکشن سر پر ہیں۔
ممبئی حملوں سے متعلق میاں نواز شریف کے بیانیہ پر یہ بھی بات ثابت ہوگئی ہے کہ وہ مسلسل امریکہ میں ہائر کی گئی لابنگ فرم کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ اس لابنگ فرم نے پہلے قومی سلامتی کی اہم ترین میٹنگ کے نوٹس سرل المیڈا کے ذریعے ہی شائع کروا کر بھارتی اور امریکی آقاؤں سے داد حاصل کی تھی اور یہی ڈان لیکس ابھی تک شریف فیملی کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بنی ہوئی ہے۔ چوہدری نثار علی خان بھی اسی رپورٹ کی روشنی میں میاں نواز شریف کے تاریک مستقبل کا اندازہ لگاتے دیکھے گئے ہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کے حواریوں نے ختم نبوت قانون کا حلف نامہ بھی اسی ایجنڈے کے تحت ختم کیا تھا اور ہائر کی گئی فرم نے عالمی طاقتوں کے سامنے میاں نواز شریف کو بطور روشن خیال لیڈر پیش کیا اور عالمی سطح پر یہ تاثر دیا گیا کہ میاں نواز شریف حقیقی جمہوریت کا چہرہ ہے اور انہیں مولوی خادم حسین سمیت ہزاروں شدت پسند علماء کا سامنا ہے۔
میاں نواز شریف کو جوتا اور پھر وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال کو ماری گئی گولیاں بھی اس پراپیگنڈہ مہم کیلئے بہت ”پرتاثیر“ ثابت ہوئی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا قتدار ختم ہونے سے 15 دن پہلے میاں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ اور ریاست پر کاری ضرب لگائی ہے۔ عدالت سے نااہلی کے بعد ان کا بیانیہ سامنے آیا تھا لیکن جو کچھ انہوں نے ”طے شدہ“ انٹرویو میں کہا اور پھر پڑوسی ملک میں اس پر پراپیگنڈہ بھی کروایا وہ بیانیہ نہیں بلکہ اب ایک اعلامیہ ہے۔
بیانیہ واپس لیا جاسکتا ہے اور اس پر معذرت کی جاسکتی ہے لیکن میاں نواز شریف کے انٹرویو کی تصدیق محترمہ مریم نواز نے کرکے اسے اعلامیہ میں تبدیل کردیا اور پھر میاں نواز شریف نے اس انٹرویو پر عالمی طاقتوں کے ایجنڈے اور روح کے عین مطابق اس اعلامیئے کو اب اعلانِ جنگ کی شکل دے دی ہے۔مسلم لیگ (ن) کے اراکین پارلیمنٹ یا تو پارٹیاں بدل رہے ہیں اور یا پھر میاں نواز شریف کے بیان پر منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کا قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ رویہ اور طرزِ گفتگو پہلی بار سامنے نہیں آیا۔
کارگل ایشو بھی میاں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کے کھاتے میں ڈال کر بھارتی حکمرانوں سے بھارت نوازی کا سرٹیفکیٹ لے لیا تھا حالانکہ حقائق اس کے برعکس تھے اور بھارت کے سابق وزیراعظم اِندر کمار گجرال نے اسی دور میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ کشمیر کے حریت پسندوں کی لسٹیں نواز شریف نے ہمیں فراہم کی تھیں۔ سب سے اہم سوال اب یہ بھی ہے کہ ہمارے قومی سلامتی کے اداروں نے بہت کچھ دیکھتے ہوئے بھی کیوں آنکھیں بند رکھیں؟ قومی سلامتی کے اداروں کو میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں پتہ چل گیا تھا کہ موصوف ہوس اقتدار میں تمام ”بارڈر“ عبور کر سکتے ہیں۔ قومی سلامتی کے اداروں نے سزا یافتہ نواز شریف کو جیل کی کال کوٹھڑی سے نکال کر جدہ کے حکمراوں کے سپرد کرکے آئین اور قانون کے منہ پر طمانچہ مارا تھا۔ میاں نواز شریف کی گندی سوچ سے پردہ اٹھ جانے کے باوجود 2013 میں ہمارے ادارے کیوں خاموش رہے؟ اور نریندر مودی کی فوٹو کاپی کو پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر بیٹھنے کا موقع دیا گیا۔
میاں نواز شریف پاکستان کا تین بار وزیراعظم رہ چکا ہے اور روحانی اعتبار سے اس نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ تینوں بار جنرل ضیاء الحق کی دعا کے ذریعے حاصل کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے جس نواز شریف کو اپنی عمر لگ جانے کی دعا دی تھی وہی نواز شریف افواج پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا ہے۔ اصولی طورپر اسٹیبلشمنٹ کو ایک وفد کی شکل میں فیصل مسجد کے صحن میں موجود جنرل ضیاء الحق کی علامتی قبر پر ”ڈولی“ چڑھانی چاہیے اور جنرل ضیاء الحق کی روح سے التجا بھی کی جائے اور استدعا بھی کی جائے کہ وہ میاں نواز شریف کو دی گئی دعا اسی طرح واپس لے لیں جس طرح جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کو دی گئی سزا واپس لے لی تھی۔
میاں نواز شریف جو گل کھلا رہے ہیں اس کے ذمہ دار اعجاز الحق بھی ہیں کیونکہ اگر وہ کسی قابل ہوتے تو جنرل ضیاء الحق ”بیگانے پوت“ کو اپنی عمر کا تحفہ تو نہ دیتے اور یہی پیکج اگر اعجاز الحق اپنے مرحوم والد سے حاصل کرلیتے تو اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ تجربات سے نہ گزرنا پڑتا۔ بہر حال تقدیر کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ نواز شریف کا ”اعلامیہ“ بن جانے والا ”بیانیہ“ ان کی تقدیر میں کیا تبدیلی لانے والا ہے اس کے اثرات جلد ہی آنا شروع ہوجائیں گے۔ لیکن اب یہ طے شدہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میاں نواز شریف اور اس کی اولاد کا نام ریڈ بک میں درج کرکے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ضرور دفن کرے گی۔
Comments are closed.