(گیارہ نکاتی لارا لپّہ ( پارٹ ۔تھری
شمشاد مانگٹ
تحریک انصاف کا دسواں وعدہ انصاف کی فراہمی ہے۔ یہ وعدہ اسی صورت پورا ہو سکتا ہے کہ ملک بھر کی بار کونسلیں اور اعلیٰ عدالتیں حکومت کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور ملک کے اعلیٰ ترین دماغ انصاف کی فوری فراہمی کے نظام کو بہتر بنائیں۔ لیکن تحریک انصاف جب اقتدار میں آئے گی تو اسے انصاف کی فوری فراہمی کا نعرہ اس لئے بھول چکا ہو گا کہ اسکے مخالفین بالکل اسی طرح اس کا ناک میں دم کئے ہونگے جیسے خود تحریک انصاف نے پانچ سال کئے رکھا ہے۔
تحریک انصاف کا 11واں وعدہ خواتین کے حقوق کو زیادہ بہتر اور موثر بنانا ہے اور یہ صرف اسی صورت بہتر ہو سکتا ہے جب ہمارا تعلیمی نظام بہتر ہو گا اور شرح خواندگی میں اضافہ ہو گا وگرنہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے قوانین بھی موجود ہیں اور ادارے بھی موجود ہیں لیکن جہالت کی وجہ سے غیرت کے نام پر دھڑ ادھڑ قتل بھی ہو رہے ہیں اور حوّا کی بیٹیوں پر تیزاب بھی پھینکے جا رہے ہیں۔ لہذا تعلیم عام کئے بغیر یہ وعدہ پورا ہونا ایک خواب ہی لگتا ہے ۔ تحریک انصاف نے آئندہ الیکشن جیتنے کے لئے جو گیارہ ”لولی پاپ“ عوام کو دیئے ہیں وہ سراب کے سوا فی الحال کچھ نہیں ہیں کیونکہ کچھ وعدے ایسے ہیں جو تحریک انصاف خود ہی پورے نہیں کر پائے گی اور جو وعدے پورے کرنا چاہے گی اپوزیشن اسے پورا نہیں کرنے دیگی۔ لہذا عوام کی بدحالی اور مایوسی میں مزید اضافہ ہو گا۔ یہی جمہوریت کا نچوڑ ہے۔
تحریک انصاف نے عوام سے کئے گئے اپنے نئے ”عمرانی معاہدے“میں دس ارب درخت لگانے کی خوشخبری بھی سنائی ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ تحریک انصاف نے خیبرپختونخواہ میں گزشتہ 5سال میں ایک ارب درخت لگانے کا وعدہ کیا تھا اور سیکرٹری جنگلات نے نیب کے روبرو یہ تسلیم کیا ہے کہ صرف25کروڑ درخت لگائے جاسکے ہیں۔تحریک انصاف کے اس وعدے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ چلیں کچھ نہ ہونے سے کچھ تو بہتر ہے اور خیبرپختونخواہ کی زمینوں کو25کروڑ درختوں نے سرسبز کردیا ہے اور اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ عمران خان اس شجرکاری منصوبے میں شفافیت برقرار رکھنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔
سیکرٹری جنگلات نے نیب کو دئیے گئے بیان میں انکشاف کیا ہے کہ 75کروڑ پودے نرسریوں میں گنتی کرکے ظاہر کئے گئے ہیں اور صرف25کروڑ پودوں کو لگایا جاسکا۔سولر پینلز،پودوں کی خریداری ،ٹیوب ویلوں کی تنصیب میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی،اس بلین ٹری منصوبے کا تخمینہ22ارب روپے لگایا گیا تھا۔20 فیصد پودے حکومتی نرسریوں سے خریدے گئے اور80فیصد پودے نجی نرسری مالکان سے خریدے گئے۔اس منصوبے کا قابل تشویش پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اربوں روپے کی ادائیگیاں چیکوں کی بجائے کیش کی صورت میں کی گئی ہیں۔
بلین ٹری منصوبے کو عمران خان آگے بڑھاوا دینے کے خواہش مند ہیں اور پورے ملک میں10 بلین ٹری منصوبہ شروع کرنے کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں۔عمران خان اگر الیکشن جیت گئے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ موٹروے پر لاہور سے اسلام آباد اور پھر ملتان سے لاہور تک نرسریوں کے جال بچھے نظر آئیں گے کیونکہ 10 ارب درختوں کا ٹارگٹ پورا کرنا آسان کام نہیں ہوگا اور اس بار تعمیراتی ٹھیکیداروں ی بجائے نرسری مالکان کی لاٹری نکلنے کا امکان ہے اور عین ممکن ہے کہ کئی تعمیراتی کمپنیاں اپنی ”جنس“تبدیل کروا کر رجسٹرڈ نرسیاں بن جائیں۔ایک اندازے کے مطابق10ارب درخت لگانے کیلئے لاکھوں لوگوں کے لئے روزگا ر پیداہوگا۔
”عمرانی معاہدے“ پر عملدرآمد کیلئے عمران خان اور انکی ٹیم کو یہ بھی خیال رکھنا ہوگا کہ درختوں کی ضرورت زیادہ کس علاقے میں ہے۔مثال کے طور پر جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں جب کچی کینال منصوبہ مکمل کیا گیا تھا تو اربوں درخت”تہہ تیغ“ کردئیے گئے تھے لہٰذا کئی ارب درخت تو ان علاقوں میں بھی لگائے جاسکتے ہیں۔”عمرانی معاہدے“ کے تحت اگر 5سال میں10 ارب کی بجائے4ارب درخت بھی لگا دئیے گئے تو پاکستان کا نہ صرف موسم تبدیل ہوجائے گا بلکہ معاشی صورتحال بھی بدل جائے گا اور عین ممکن ہے کہ 4ارب درخت لگائے جانے کے بعد پاکستان میں اپریل اور مئی کے مہینوں میں برفباری کے نظارے دیکھنے کو ملیں۔
اقتدار ملنے کی صورت میں ”معاہدہ عمرانی“ کے تحت ملک بھر میں 50لاکھ گھر عوام کو دینے کی نوید سنائی گئی ہے۔اگر عمران خان اور انکی ٹیم اقتدار ملنے کے بعد کوئی دوسرا کام نہ کریں اور صرف عوام کیلئے گھروں کی سہولت فراہم کرنے میں دن رات صرف کردیں پھر بھی بمشکل5لاکھ گھروں کی دیواریں کھڑی ہوتی ہوئی نظر آسکتی ہیں اور اگر عمران خان5 لاکھ افراد کے لئے دیواروں سمیت گھروں کی الاٹمنٹ کا بندوبست کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اگلا الیکشن بھی انکا ہی ہوگا۔یہ ٹارگٹ اس لئے مشکل ہے کہ عمران خان اگر اقتدار سنبھالیں گے تو پورا سسٹم انہیں زنگ آلود ملے گا اس سسٹم کو رواں کرنے میں پانچ سال کا عرصہ بہت کم ہے۔
مثال کے طور پر وفاقی دارالحکومت میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے انت مچا رکھی ہے لیکن سی ڈی اے گزشتہ20سال میں ایک نیا سیکٹر بھی نہیں دے سکا۔پنجاب میں آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کے ذریعے سرکاری ملازمین نے جو کچھ کیا ہے وہ بھی عوام کے سامنے ہے اور لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے لیکر راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور دیگر تمام اضلاع کی اتھارٹیز عوام کے پیسے کا تحفظ کرنے میں بری طرح نہ صرف ناکام رہی ہیں بلکہ عوام کو لوٹنے میں لینڈ مافیا کیلئے سہولت کار کا کردار ادا کرتی چلی آرہی ہیں۔حالانکہ رہائشی منصوبوں کیلئے حکومت عوام سے بھی خطیر رقم اکٹھی کرسکتی ہے بشرطیکہ حکومت کی نیت ٹھیک ہو۔
مگر عمران خان کیلئے بیک وقت اپنے ساتھ کام کرنے والے ہزاروں لوگوں کی نیت ٹھیک کرنا ناممکن ہوگا۔مثال کے طور پر وزارت ہاؤسنگ نے پرویز مشرف دور میں بہارہ کہو ہاؤسنگ سکیم کا جھانسہ دیکر سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین سے اربوں روپے اکٹھے کئے تھے لیکن15سال گزرنے کے باوجود ایک انچ زمین کا قبضہ نہیں دیا جاسکا۔اور اگر ”عمرانی معاہدہ“کے تحت یہ گھر لوگوں کو مفت دیا جاتا ہے تو پھر یہ اسی طرح ناممکن ہے جس طرح پیپلزپارٹی کا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان آج بھی نامکمل ہے۔جس وقت پیپلزپارٹی کا یہ نعرہ عروج پر تھا عین اس وقت میڈم نورجہاں کا یہ گانا بہت مشہور تھا۔
”کوئی نواں لارا لا کے مینوں رول جا
جھوٹیا وے اِک جھوٹ ہور بول جا“
”معاہدہ عمرانی“ کے تحت عوام کی تقدیر بدلنے کیلئے جو وعدے کئے گئے ایک اندازے کے مطابق انہیں مکمل کرنے کیلئے ہمارے کل بجٹ سے 10گنا زیادہ فنڈز درکار ہوں گے۔لہٰذا عمران خان اپنے اس”خلائی“ منشور پر عمل درآمد شروع کرنے سے پہلے تمام محکموں،وزارتوں اور اداروں کی سربراہ”مخلوق“ سے بھی پوچھ لیں کہ کون کون ان عظیم منصوبوں کی تکمیل کیلئے پیٹ پر پتھر باندھ کر گزارہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟۔بہرحال عمران خان کیلئے خوش آئند بات یہ ہے کہ عوام انکے”لاروں“پر یقین کرنے کو تیار بیٹھی ہوئی ہے۔
Comments are closed.