باتوں کےپکوڑے
جاوید چوہدری
ہم اب حل کی طرف آتے ہیں‘ عمران خان کے پاس پانچ نقاط ہوں‘ دس ہوں یا پھر گیارہ لیکن یہ ہرگز‘ ہرگز اور ہرگز اٹھارہویں ترمیم کو چھیڑنے کی غلطی نہ کریں‘ میں سمجھتا ہوں اٹھارہویں ترمیم نانی کا نکاح ہے‘ یہ نکاح ہونا ہی نہیں چاہیے تھا یا پھر یہ تیس سال پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔
ہمیں اس طرح نانی کے بوڑھا ہونے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے تھا اور نانی اگر ہماری حماقتوں کی وجہ سے بوڑھی ہو گئی تھیں تو پھر ہمیں ان کا نکاح نہیں کرنا چاہیے تھا اور ہم نے اگر اب یہ حماقت کر ہی دی ہے تو پھر ہمیں اب ہرگز ہرگز طلاق کی غلطی نہیں کرنی چاہیے‘ اٹھارہویں ترمیم میں چھیڑ چھاڑ رہے سہے سسٹم کو بھی تباہ کر دے گی۔
ہم نے 35 سال لگا کر پہلے وفاقی ادارے بنائے ‘ یہ ادارے جب ڈیلیور کرنے کے قابل ہوئے تو ہم نے 2010ء میں اٹھارہویں ترمیم کر کے وفاق کے 90 فیصد ادارے صوبوں میں تقسیم کر دیے‘ صوبے اداروں کے بوجھ تلے دب گئے‘ ملک میں چار سال کسی شعبے میں کوئی کام نہیں ہوا‘ وفاق چار برسوں میں بجلی پیدا نہیں کر سکا‘کیوں؟ کیونکہ یہ خدمت صوبوں کے پاس چلی گئی تھی اور صوبے اس لیے بجلی پیدا نہیں کر سکے کہ یہ کام انھیں آتا ہی نہیں تھا چنانچہ ملک میں بجلی کا بحران پیدا ہوگیا۔
تعلیم‘ روزگار‘ صحت‘ سرمایہ کاری‘ زراعت‘ ماحولیات‘ پولیس‘ وومن امپاورمنٹ اور اینٹی کرپشن کے شعبوں میں بھی یہی ہوا‘ یہ تمام شعبے 2010ء تک وفاق کے پاس تھے‘ وفاق نے اچانک یہ تمام چٹانیں صوبوں کی طرف دھکیل دیں اور صوبے ان کے نیچے کچلتے چلے گئے‘ صوبے آٹھ سال بعد اب بڑی مشکل سے سنبھلے ہیں‘ یہ نئے سسٹم بنا چکے ہیں‘ صوبوں میں ادارے بھی بن گئے ہیں اور یہ ادارے دو تین برسوں میں نتائج دینے کے قابل ہو جائیں گے۔
وفاق اب اگر دوبارہ صوبوں سے یہ ادارے واپس لے لیتا ہے تو ملک میں دو بحران پیدا ہو جائیں گے‘ صوبوں کا سارا سسٹم جڑوں سے ہل جائے گا اور وفاق میں آٹھ سال کے وقفے کے بعدان اداروں کو ہینڈل کرنے کی کیپسٹی نہیں رہی‘ یہ انھیں ہینڈل نہیں کر سکے گا اور یوں ہم مزید بیس پچیس سال پیچھے چلے جائیں گے چنانچہ میرا مشورہ ہے عمران خان اپنے گیارہ نقاط کو سچ ثابت کرنے کے لیے اٹھارہویں ترمیم چھیڑنے کے بجائے صوبوں کی معاونت کے لیے چند نئے ادارے بنائیں اور بڑے بھائی کا کردار ادا کرنا شروع کر دیں مثلاً یہ ٹیچرز ٹریننگ اور نصاب کی تیاری کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیں۔
وفاقی ادارے پورے ملک کے لیے سلیبس بنائیں‘ پورے ملک کے اساتذہ کی ٹریننگ کریں اور استاد اور سلیبس صوبوں کے حوالے کر دیں‘ صوبے جانیں اور ان کا کام‘ یہ ایف آئی اے اور نیب کو امریکا کی ایف بی آئی اور بھارت کی سی بی آئی کی طرح مضبوط‘ فعال اور آزاد بنا دیں‘ یہ دونوں وفاقی ادارے ملک کے کسی بھی حصے میں کام کر سکیں اور کوئی ان پر انگلی نہ اٹھا سکے۔
وفاق ملک کی تمام ڈویژنز میں ایک ایک فیڈرل اسپتال بنا دے‘ یہ اسپتال عالمی سطح کے ہوں‘ ان کے تمام ڈاکٹرز پروفیسر ہوں اور یہ پروفیسر صوبائی محکمہ صحت کے ڈاکٹروں کو ٹریننگ دیں‘ ان فیڈرل اسپتالوں میں ہیلی کاپٹر ایمبولینس کی سہولت بھی دستیاب ہو‘ وفاق اسلام آباد میں روزگار‘ سیاحت‘ زراعت‘ سرمایہ کاری‘ ماحولیات‘ وومن امپاورمنٹ‘ اینٹی کرپشن اور پولیس کے شعبوں میں تحقیق اور نئی پالیسیاں بنانے کے لیے بھی ادارے بنائے یا پرانے اداروں کو ایکٹو کر دے‘ یہ ادارے ریسرچ کریں۔
ماڈل تخلیق کریں اور یہ ماڈل صوبوں کے حوالے کر دیے جائیں یوں صوبے چند برسوں میں قدموں پر کھڑے ہو جائیں گے‘ آرمی چیف نے بھی 9مارچ2018ء کو اینکر پرسنز کے ساتھ ملاقات کے دوران فرمایا تھا ’’اٹھارہویں ترمیم میں سقم ہیں‘ تعلیم اور لاء اینڈ آرڈر وفاق کے پاس ہونے چاہئیں۔
پورے ملک میں اسلحے پر بھی پابندی ہونی چاہیے‘‘ عمران خان اور آرمی چیف دونوں کے خیالات میں اس معاملے میں اتفاق پایا جاتا ہے‘ میں بھی یہ سمجھتا ہوں ملک میں اسلحہ بین ہونا چاہیے اور لاء اینڈ آرڈر وفاق کی گرفت میں ہونا چاہیے لیکن آپ یہ کام اٹھارہویں ترمیم کو چھیڑے بغیر بھی کر سکتے ہیں‘ آپ نیکٹا کو مضبوط اور فعال بنا دیں‘ آپ فیڈرل پولیس بنائیں‘ یہ پولیس ہنگامی صورتحال میں پورے ملک میں آپریشن کر سکے‘ آپ اسلام آباد میں ملک کی سب سے بڑی فرانزک لیب‘ تفتیشی ڈیپارٹمنٹ‘ کرائم سین انویسٹی گیشن‘ مجرموں اور قیدیوں کا ڈیٹا بینک اور پورے ملک کو سی سی ٹی وی کیمروں سے جوڑنے کا بندوبست کر دیں۔
پورے ملک کا لاء اینڈ آرڈر خود بخود وفاق کے ہاتھ میں آ جائے گا‘ ہم نے نیشنل ایکشن پروگرام میں ’’ریپڈ ایکشن فورس‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا تھا‘ آپ ایس ایس جی کا دائرہ بڑھا کر اسے ’’نیشنل ریپڈ ایکشن فورس‘‘ بنا دیں‘ یہ فورس فوج کے لیے بھی کام کرے اور سول اداروں کے لیے بھی‘ آپ اسی طرح ایرا‘ نادرا‘ ایف بی آر‘ سپریم کورٹ آف پاکستان اور افواج پاکستان کے دائرہ کار کو بھی بڑھادیں اور آپ اینٹی اسمگلنگ یونٹس‘ اینٹی نارکوٹکس فورس اور نیب کے قوانین میں بھی تبدیلی کریں۔
آپ انھیں مزید اختیارات دے دیں‘ مزید ٹریننگ دیں اور ان سے پورے نتائج حاصل کریں یوں وفاق اٹھارہویں ترمیم کو چھیڑے بغیر مضبوط ہو جائے گا‘ وفاق یونیورسٹیوں‘ میڈیکل کالجز‘ انجینئرنگ یونیورسٹیوں اور ٹیکنیکل کالجز کو بھی اپنے کنٹرول میں لے سکتاہے‘ آپ ایچ ای سی کو دوبارہ فعال کریں‘ ڈاکٹر عطاء الرحمن کو اس کا تاحیات چیئرمین بنا دیں‘ فنڈز دیں اور نتائج حاصل کریں‘ پاکستان میں پانچ سے دس سال میں بہت کچھ تبدیل ہو جائے گا۔
دنیا 2010ء تک صرف نام کا ’’گلوبل ویلج‘‘ تھی لیکن یہ آج حقیقتاً ’’گلوبل ویلج‘‘ بن چکی ہے‘ آپ دنیا کے کسی کونے کے کسی شخص سے مخاطب ہونا چاہتے ہیں‘ آپ کسی کو تلاش کرنا چاہتے ہیں‘ آپ موبائل فون پر انگلی رکھیں اور آپ چند سکینڈز میں اس تک پہنچ جائیں گے‘ آج کے اس گلوبل ویلج نے تین بڑے کمال کیے‘ پہلا کمال کنیکٹویٹی یعنی رابطہ ہے‘ آج صدر ٹرمپ اور مارک زکر برگ ایک ٹویٹ کرتے ہیں اور پوری دنیا کی معاشی اور سفارتی سرحدیں تبدیل ہو جاتی ہیں‘کیا یہ کمال نہیں؟
دوسرا کمال علم ہے‘ پوری دنیا کے لیے علم کامن ہو چکا ہے‘ آپ انٹرنیٹ کے ذریعے مشکل سے مشکل علم گھر بیٹھے سیکھ لیتے ہیں اور تیسرا کمال ڈیٹا ہے‘ آپ کو اب کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے دس بیس سال ٹامک ٹوئیاں نہیں مارنی پڑتیں‘ آپ گوگل پر جائیں اور یہ آپ کو چند سیکنڈز میں بتا دے گا یہ تجربہ آج تک کتنے لوگوں نے کیا۔
کتنے کامیاب ہوئے‘ کتنے ناکام ہوئے اور اس کام کا بہترین طریقہ کیا ہے‘ ہم اگر واقعی ملک کو بدلنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں زیادہ تگ ودو کی ضرورت نہیں‘ ہم پاکستان کے سو بڑے دماغوں کو بٹھائیں اور یہ ریسرچ کریں‘ کینیڈا نے امیگریشن کا مسئلہ کیسے حل کیا‘ چین‘ جاپان اور بھارت دنیا میں سب سے زیادہ بجلی کیسے پیدا کر رہے ہیں‘ جرمنوں نے دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکنیکل ایجوکیشن کیسے حاصل کی‘ آسٹریلیا کیسے بے ہنر لوگوں کو ہنرمندوں میں تبدیل کر رہا ہے۔
انڈونیشیا نے دہشت گردی کیسے ختم کی‘ برازیل نے دس سال میں غربت کیسے مٹا دی‘ گرامین بینک اور براک بنگلہ دیش میں کیا سماجی تبدیلیاں لے کر آئے‘ بھوٹان ماحولیات میں کس طرح دنیا کا بہترین ملک بنا‘ نیوزی لینڈ اور سوئٹزرلینڈ کس طرح دنیا کے بہترین رہائشی ملک بنے‘ تھائی لینڈ کس طرح ایڈز فری ہوا‘ افریقہ کس طرح بیماری اور غربت سے باہر نکل آیا‘ ترکی‘ اردن اور ملائیشیا نے کس طرح عالمی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیا‘ سنگا پور نے کس طرح کرپشن ختم کی‘ امریکا کس طرح اپنی روایتی فوج کو غیر روایتی فورس میں تبدیل کر رہا ہے۔
فرانس نے عربوں کو کس طرح سرمایہ کاری کے لیے قائل کیا‘ اسرائیل کس طرح اسلامی ملکوں کو آہستہ آہستہ توڑ رہا ہے‘ کینیڈا کس طرح اپنے جنگلات کو محفوظ کرتا جا رہا ہے اور چین کس طرح شہروں میں چالیس چالیس ہزار اسمارٹ کیمرے لگا کر ڈیجیٹل پولیسنگ کا ماڈل متعارف کرا رہا ہے‘ ہالینڈ کس طرح پھولوں کی صنعت سے گیارہ بلین ڈالر کما رہا ہے‘ بیلجیئم نے کس طرح ہیرے کی انڈسٹری اپنے ہاتھ میں لے لی۔
سری لنکا نے کس طرح پوری دنیا کو ویٹرز‘ بنگلہ دیش نے کک اور فلپائن نے سینٹری ورکرز سپلائی کرنا شروع کر دیے اور اسپین کس طرح پوری دنیا کو زیتون‘ اورنج جوس اور سرکہ فراہم کرنے لگا‘ پوری دنیا کے ماڈل ہمارے سامنے ہیں‘ ہم ان میں سے اپنی مرضی کے ماڈل اٹھائیں‘ اپنے لوگوں کو ان ملکوں میں ٹریننگ دلائیں اور ملک میں تبدیلی لے آئیں‘ دنیا اب بہت بڑی مارکیٹ بھی بن چکی ہے۔
ہم اگر صرف موبائل فون چارجرز کے اسپیشلسٹ بن جائیں‘ ہم دنیا کو جدید اور سستے چارجر بنا کر دیں تو بھی ہم اربوں ڈالر کما لیں‘ ہم اگر تولیے‘ جرابوں اور بنیانوں کی صنعت ہی قابو کر لیں تو ہمیں مزید کام کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی اور ہم اگر دنیا کو صرف انجینئرز‘ ڈاکٹرز اور سافٹ ڈویلپرز ہی دینا شروع کر دیں‘ ہم اگر دنیا کو کرکٹرز ہی فراہم کرنا شروع کر دیں۔
ہم اگر سیکیورٹی گارڈز کی انڈسٹری ہی بن جائیں اور ہم اگر اپنی ساری صلاحیتیں صرف چٹنی‘ اچار اور جیم پر ہی لگا دیں‘ ہم صرف کینو کی انڈسٹری اٹھا لیں یا پھر ہم لہسن‘ پیاز اور ہلدی کے ایکسپرٹ ہی بن جائیں تو ہم غربت سے باہر آ جائیں گے‘ ہم ڈاکٹرز اور انجینئرز کو بھی اپنی ایکسپورٹ بنا سکتے ہیں‘ پوری دنیا میں ہمارے ڈاکٹروں اور انجینئرز کی مانگ ہے‘ ہم دنیا کو ہر سال پانچ ہزار ڈاکٹرز اور انجینئرز کیوں نہیں دیتے‘ ہمارے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پھر ہم سیاحت کو حقیقی انڈسٹری بنا دیں‘ آپ ملک کے دس مقامات کو ’’ٹورازم سائیٹس‘‘ ڈکلیئر کر دیں اور یہ مقامات پوری دنیا کے لیے کھول دیں‘ لوگ آئیں‘ جو چاہیں کریں اور واپس چلے جائیں۔
ہم میں سے کوئی انھیں ڈسٹرب نہ کرے تو بھی ملک چل پڑے گا‘ یہ سب کچھ اگر انڈونیشیا‘ ملائیشیا‘ ترکی‘ مصر‘ دوبئی‘ اردن‘ ازبکستان اور عمان میں ہو سکتا ہے تویہ گوادر‘ پسنی‘ جیونی‘ ناران‘ نیلم‘ گلگت‘ سکردو‘ چترال‘ چمن‘ موہن جو داڑو‘ ہڑپہ اور ٹیکسلا میں کیوں ممکن نہیں؟
ہم کم از کم خود کو کلیئر تو کریں‘ہم کب تک سماجی کنفیوژن کا شکار رہیں گے‘ آپ یقین کریں دنیا میں اب کوئی چیز ناممکن نہیں بس ناممکن کو ممکن بنانے کی وِل چاہیے اور مسئلہ حل لیکن ہم کیونکہ باتوں کے پکوڑے تلنا بندنہیں کرتے چنانچہ ہم کنفیوژن کے کیچڑ میں دھنستے چلے جارہے ہیں‘ ہم چیزوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش میں انھیں پہلے سے زیادہ خراب کر دیتے ہیں اور یہ ہماری تاریخ ہے۔
Comments are closed.