وہ لمحات جب ملک دو لخت ہو رہا تھا
ذوالفقار احمد چیمہ
ذوالفقار احمد چیمہسابق سول سرونٹ مسعود مفتی صاحب کی کتاب ’’چہرے اور مہرے‘‘اُن المناک لمحوں کے تاثرات ہیں جب وطنِ عزیز کے دو ٹکڑے ہورہے تھے، یہ ایک رپورتاژ ہے جو ایک باضمیر سول سرونٹ نے سقوطِ ڈھاکا کے بارے میں لکھی ہے،مصنف نے صحیح لکھا ہے کہ ’’سبھی حکومتوں کی خاموش حکمتِ عملی یہی رہی ہے کہ قوم اس حادثے کو ایسے فراموش کردے جیسے کبھی ہواہی نہیں تھا۔اسی وجہ سے ہمارے درباری کلچر میں اس موضوع سے عام گریز رہا۔‘‘
مسعودمفتی صاحب دیباچے میں لکھتے ہیں ’’قدرت نے 1971 میں مشرقی پاکستان کی سر زمین پر مجھے عینی شاہد ہو نے کا نادر موقع فراہم کیا،تو میں نے وہ کچھ دیکھا جو سنسر شپ کی وجہ سے مغربی پاکستان والے نہ تو جان سکتے تھے نہ ہی اس کا تصور کرتے تھے۔‘‘پھرلکھتے ہیں ِ‘‘پاکستانی لیڈرو ں کے بر عکس پاکستانی قوم بہت مخلص اور محبِّ وطن ہے اور مشرقی پاکستانیوں میں یہ رنگ کچھ زیادہ ہی چوکھے تھے کیونکہ بنگال میں مغربی پاکستان والا جاگیر داری نظام نہیں تھا۔میری ذاتی رائے کے مطابق سقوطِ ڈھاکا کے وقت بھی بنگالیوں کی غالب اکثریت (قریباً75فیصد )پاکستان کے ساتھ تھی ۔‘‘
پیش لفظ میں لکھتے ہیں’’ 1971 کے دوران مغربی پاکستان کے قریباً تیس افسران مشرقی پاکستان میں تعینات ہوئے جب جنگ میں حا لات زیادہ خراب ہوئے تو 8دسمبر کو ہم سب گورنر ہاؤس میں منتقل ہو گئے، پھر مشرقی پاکستان پر نزع کی ھچکیاں طاری ہوئیں تو گورنر ہاؤس بھی دارلامان نہ رہ سکا چنانچہ 14دسمبر کو گورنر مشرقی پاکستان ،ان کے وزراء اور قریباًسبھی افسران کو ہوٹل انٹر کانٹی نیشنل میں پناہ لینا پڑی، جوغیر جانبدار علاقہ تھا اور بین الاقوامی ریڈکراس کی تحویل میں تھا‘‘۔مصنف اور د و سرے لوگوں کو19دسمبر ہوٹل سے ڈھاکا چھاؤنی میں منتقل کردیاگیاجہاں وہ جنگی قیدی بن گئے۔
مصنف ان قیامت خیز گھڑیوں کے بارے میں لکھتے ہیں’’ہوٹل کے کمرہ نمبر 110کی کھڑکی سے جھانکتا ہوں تو ڈھاکا شہر کی سڑکیں،بلند بالا عمارتیں اور سبز گوشے سنسان پڑے ہیں ۔مگر پھر جنگ کا طبل بجتا ہے، ڈھاکا کے ہر کونے سے ہوائی حملے والے سائرن پکار پکا ر کر خبر دار کر نے لگتے ہیں،چند ہی منٹ بعد دو ہندوستانی ہوائی جہاز مشرق سے جھپٹ کر آتے ہیں اور مغرب سے میری کھڑکی کے سامنے سے گرجتے ہوئے غوطہ لگاتے ہیں،فضاء میں بجلیاں کڑک جاتی ہیںاور ہوائی جہاز سرشار کرگسوں کی طرح اوپر کو اُٹھتے ہیں،چند طیارہ شکن توپیں اپنی گرج سے فضاء کے پرخچے اڑاتی ہیں مگر خدانے بھی ہم سے منہ موڑلیا ہے اور ان کے وار خالی جارہے ہیں ۔
دشمن کے ہوائی جہاز فضاء میں اس طرح اٹھکیلیاں کرتے پھرتے ہیں جیسے دریا پر بگلے ۔ہمارے ہوائی جہاز چھ دسمبر(ڈھاکا کا رن وے تباہ ہونے کے بعد)نہیں اُڑسکے ۔اب دشمن کے جہاز اس انداز میں ٹہلتے ہیں جیسے جاگیر دار اپنے علاقے میں گھومتا ہے‘‘۔ مصنف کا کہنا ہے،ہوٹل میں چار قسم کے چہرے ہیں۔ پہلی قسم غیرملکی چہروں کی ہے جونامہ نگاروں ،اخبار نویسوں اور تاجروں کا نقاب اوڑھے ہیں یہ چہرے اس چمن کی آبیاری کرنے کے روپ میں آتے تھے،مگر نہایت مہارت سے بیخ کنی کررھے تھے۔
ہوٹل میں دوسری قسم مغربی پاکستانیوں کی ہے ۔ یہ چہرے اپنی ڈوبتی ہوئی کشتی کو دل پکڑکر دیکھ رہے ہیں،ان کی مایوس نظریں دیکھ رہیں کہ کشتی ڈوب رہی ہے،سمندر مگرمچھوں اور نہنگوں سے اٹا پڑاہے اور ساحل بہت دور ہے، جہاں سے یادوں کے روشن پہر بچوں کے ننھے ننھے ہاتھ انکو بلا رہے ہیں ۔بیویوں کے بھیگے آنچل انھیں سہارا دینے کو بے چین ہیں مَائیں اور بہنیں بلائیں لے رہی ہیں ۔مگر یہ سب’’اب کیاہوگا‘‘ کے بھنور میں غائب ہورہا ہے، انھی میں سے کچھ نمازوں اور دعاؤں میں ڈوبے ہوئے ہیں، یہ انسان سے مایوس ہو کر انسان بنانے والے سے رجوع کررہے ہیں لیکن انسان بنانے والے نے انسانوں کے لیے کچھ ابدی اصول بنائے ہیں جوان اصولوں سے انحراف کر تا ہے وہ وقت کی گہری لحد میں جا سوتا ہے۔
اس ہجوم میں چہروں کی تیسری قسم مشرقی پاکستان کے لوگوں کی ہے۔ان میں زیادہ تروہ لوگ ہیں جنہوں نے تن،من دھن سے پاکستان کی حمایت کی اور آخروقت تک حکومت کا ساتھ دیا۔یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام آباد کے ملاحوں پراعتماد نہ ہونے کے باوجود ڈوبتی کشتی کو بچانے کی تگ ودو میں لگے رہے۔مارچ کے بعد یہ چیخ چیخ کر بہت کچھ کہتے رہے مگر ان کی ایک نہ سنی گئی اس کے باوجود یہ پاکستان کی حمایت میں لڑتے رہے ۔مجھے ستمبر کے مہینے میں ایک ایسے ہی انتہائی سمجھدار بنگالی سے ملاقات یاد آتی ہے جوآنکھوں میں آنسوبھر کر کہہ رہا تھا “ہم نے اس ملک کو آئیڈیولوجیکل ملک کہااوراور سیکولر انداز میں چلایا۔بھارت نے اپنے ملک کو سیکولر کہااور آئیڈیولوجیکال انداز میں چلایا۔
منافق وہ بھی تھے۔مگر وہ ہم سے بہتر منافق نکلے”باہر بم برس رہے ہیں۔ اندر گریہء سحری اور آہ ِ نیم شبی کے جذبات کے ساتھ دعائیں مانگی جارہی ہیں۔بعض چہرے پرانے فوجیوں سے ڈھاکا پر بمباری کے نتائج کے متعلق سوال کر رہے ہیں ۔جواب یہی ملتاہے کہ بمباری بذات خود کوئی چیز نہیں۔اگر لڑنے کی ہمّت ہو تو یہ معمولی چیز ہے ۔اور اگر ہمت جواب دے رہی ہو تویہ حوصلہ شکنی کی آخری شکل بن جاتی ہے۔1942 میں انگلستان پر ہفتوں بمباری ہوئی اور اتنی ہوتی تھی کہ دن کو سورج دھوئیں اور دھول میں چھپ جاتا تھا۔مگر لوگوں کی ہمت نہ ڈولی اور وہ لڑتے رہے۔
’’شہرکی لڑائی میں کیاصورت ہوسکتی ہے ؟‘‘جواب ملتاہے کہ یہ بھی ہمت کی بات ہے ۔پیرس جیسے بڑے شہرمیں لوگ لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیتے ہیں کہ شہر خراب نہ ہو ۔اور اسٹالن گراڈ جیسی جگہ میں ہمت کے بل بوتے پر کئی سال گلی کوچوں میں لڑائی کرکے دشمن کو شکست دی جاتی ہے ۔ہمت کی بات آتی ہے تو دل کو سکون پہنچتا ہے کہ خداکے فضل سے اس چیز کی ہم میں کمی نہیں ۔میرے ذہن میں 1965 کی ہند و پاک جنگ کے معجزہ نما کارنامے گھومتے لگتے ہیں جوہمارے جیالے فوجیوں کی ہمت اور جذبے نے سرانجام دیے ۔انشاء اللہ اب بھی ایساہوگا۔مگر ساتھ ساتھ سیانوں کے وہ تبصرے بھی کا نوں میں گونجتے ہیں کہ جب فوج غیرفوجی قسم کے سیاسی کا موں کی عادی ہو جائے تو وہ بدل جاتی ہے‘‘اسی بات سے تو خوف آتاہے جب سنتے ہیں کہ فوج کا کوئی جرنیل سیاسی جوڑ توڑمیں ملوث ہے تو دل کانپ اٹھتاہے اورذہن کے افق پر اسکابھیانک انجام نظر آنے لگتاہے۔ اس قیامت خیز سانحے کی رودادسناتے ہوئے مفتی صاحب لکھتے ہیں،
’’پندرہ دسمبر کا دن بڑا اذیّت ناک ہے،گھڑی کی سوئیاں مدہم ہیں،دشمن کے جہاز تیز ہیں سیکیویٹی کونسل سست ہے ، امریکا کا ساتواں بحری بیڑہ آنے کے اعلان کے باوجود نہیں آتا،چین مدد کا اعلان کرتا ہے مگر کچھ نہیں ہوتا۔ مغربی پاکستان میں چھمب کا حملہ ناکام دکھائی دیتا ہے۔ کراچی پر دھڑادھڑحملے ہورہے ہیں ۔اس وقت ہوائی حملے بند ہیں مگر ان کی فلک شگاف بازگشت چہروں کے پیچھے لرزاں ہے۔ تازہ ترین خبر جنرل مانک شاء کا الٹی میٹم ہے کہ کل صبح ساڑھے نو بجے تک ہتھیار ڈال دیے جائیں ۔
میں صبح کا ناشتہ کرنے جاتا ہوں تو میرے کارڈپر 16دسمبر کی تاریخ درج کردی جاتی ہے۔مشرقی پاکستان پر حملہ ہوئے پچیّس دن گزر گئے ہیں،دشمن ڈھاکا پہنچنے کو ہے۔میرامضطرب دل پوچھتاہے کہ ہم لڑنے میں اتنے برے تونہ تھے مگر پھر سو چتاہوں کہ لڑنے کی قابلیّت کاپتہ فقط لڑائی کے وقت پتہ چلتاہے۔
کمرے کے دروازے پر دستک ہوتی ہے میں اٹھ کردروازہ کھولتاہوں تو میراساتھی کہتاہے چلیے سب لوگوں کونیچے اکھٹاہونے کوکہاگیا ہے‘ ’’کیوں؟ میں نے جُراّت سے پوچھا۔’’سرنڈر ‘‘وہ ایک لفظ بولتا ہے۔نیچے ریڈکراس کا نمایندہ بتاتاہے کہ یہاں کے فوجی کمانڈر وں نے ہتھیار ڈالنے کے متعلق جنرل مانک شاء کا الٹی میٹم منظورکر لیا ہے۔
اب قصّہ ختم ہوچکاہے، اب ہم بنگلہ دیش میں بیٹھے ہیں،خدامعلوم آزادبنگلہ دیش یاہندوستان کا ایک صوبہ۔ ہماری حِسّیا ت مفلوج ہیں،پاؤں تلے زمین محسوس نہیں ہوتی سر پر چھت نظر نہیں آتی،دیواریں کہیں غائب ہوگئی ہیں جس کرسی پر بیٹھاہوں اسکالمس عجیب سامحسوس ہوتا ہے جیسے کوئی غیر حقیقی چیز ہوجس کا کوئی وجود نہیں ۔یوں لگتاہے سب کچھ ختم ہوگیاہے ۔نہ جہان ہے نہ جان ۔نہ آس رہی ہے نہ احساس،پاکستانی جھنڈے کے چاند تارے یہاں کیا ڈوبے،کائنات کے مہ وانجم ہی ٹوٹ گئے۔قوم پر اس سے بڑی قیامت کیا ٹوٹے گی”
مسلم اُمہ کو صدیوں بعد اتنی ذلّت آمیز ہزیمت اٹھانا پڑی۔اس عظیم حادثے اور شکست کے اسباب جاننے کے لیے اعلیٰ ترین سطح کا کمیشن قائم کیا گیا۔کمیشن کی رپورٹ کے ابتدائی صفحات میں تحریر ہے۔
’’جس دن لیفٹیننٹ جنرل نیازی نے یہ بڑہانکی تھی کہ دشمن کو ڈھاکا پہنچنے کے لیے اس کی لاش پر سے گزرنا پڑیگا ۔اس سے اگلے ہی روز پاکستانی قوم عالمی میڈیا سے یہ خبر سن کر دم بخواور ہکابکا رہ گئی کہ 16دسمبر کو جنرل نیازی نے شکست تسلیم کرلی اور بڑے شرمناک اور ذلت بھرے انداز میں ریس کورس میں منعقد ہ تقریب میں خودبھی ہتھیارڈال دیے اور اپنی زیرِ کمان فوجیوں سے بھی ہتھیار ڈالوادیے۔قوم یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ شرمناک اور ُپراسرارعجلت میں جنگ بندی منظور کرنے اور شکست تسلیم کرنے کی کیا وجہ تھی؟
چنانچہ بے ساختہ غم وغصے کے ریلے میں لوگ الزام لگانے لگے کہ یحییٰ خان کی حکومت نے غداری اور دغابازی سے قوم کوتباہ اور رسواکرنے کی سازش کی ہے اور مطالبہ کرنے لگے کہ قصور وار مجرموں پر کھلامقدمہ چلاکر انھیں کڑی سزا دی جائے ۔یہ احتجاج اتنازور پکڑ گیاکہ اسوقت کے نامزد ڈپٹی وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوکو بڑی عجلت میں نیویارک سے بلایا گیاجہاں وہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں پاکستانی وفد کی قیادت کررہے تھے اور 20دسمبر1971 کو جنرل یحییٰ اور ان کے ساتھیوں نے اقتدار ان کے حوالے کردیا۔ان حالات میں نئے صدر نے چارج سنبھالتے ہی ایک کمیشن مقرر کردیاجوحمود الرحّمان کمیشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
Comments are closed.