بنی گالہ میں ، چن، کی روشنی !
شمشاد مانگٹ
تحریک انصاف نے وکٹیں گرانے اور وکٹیں اڑانے کا سلسلہ تقریباً ایک سال سے مسلسل جاری رکھا ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے 30 اراکین اسمبلی اب تک عمران خان کو اپنی ”وفاداری“ کا یقین دلا چکے ہیں۔
پاکستان میں ہر الیکشن سے پہلے جمہوریت کے ساتھ یہ ”سیاسی بدفعلی“ ضرور ہوتی ہے اور ہر پارٹی کا سربراہ پارٹی چھوڑنے والوں کو غیر نظریاتی قرار دے کر اس کی فائل جزوقتی طور پر بند کردیتا ہے۔ جنوبی صوبہ محاذ کے لوگوں نے جب احساس محرومی کے نام پر الگ گروپ بنایا تو میاں نواز شریف نے پارٹی چھوڑنے والوں کے بارے میں کہا کہ یہ کبھی ہمارے تھے ہی نہیں۔
عمران خان نے سینیٹ الیکشن میں ضمیر فروشی کے الزام میں اپنے 20 ممبران کو دھتکار کر باقی پارٹیوں کیلئے ایک چیلنج کھڑا کردیا لیکن ان ممبران کو راندہء درگاہ کرنے سے پہلے عمران خان کو مکمل تحقیق کرکے جرم ثابت کرنا چاہیے تھاکیونکہ ان 20 اراکین میں سے اکثر اب سرپر قرآن اٹھا کر ذوالفقار مرزا سٹائل میں پریس کانفرنس کے ذریعے بے گناہی کی پکار برپا کئے ہوئے ہیں۔
اسی طرح پیپلزپارٹی کے متحرک ترین راہنماء ندیم افضل چن بھی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو سے ہاتھ چھڑا کر عمران خان کے کھلاڑی بن گئے ہیں۔ اس ”علیحدگی“ پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ندیم افضل چن نظریاتی نظر آتے تھے مگر نظریاتی نہیں تھے۔
حالانکہ اگر پیپلزپارٹی کی سیاست کو تنقیدی نگاہ سے دیکھا جائے تو اب پیپلزپارٹی بھی اپنے اصولوں اور نظریات سے بہت دور نظر آتی ہے ۔ پیپلزپارٹی میں اگرچہ بھٹو زندہ ہے مگر بھٹو کا سیاسی فلسفہ موت کے گھاٹ اتر چکا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو عوامی سیاست کے عملبردار تھے او رعوام کے دلوں پر حکمرانی کو جمہوریت سے تعبیر کرتے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 2007 ء میں اپنی شہادت تک بھٹو کا سیاسی فلسفہ زندہ رکھا لیکن گزشتہ پانچ سال سے پی پی پی کے امیدواروں کی ضبط ہونے والی ضمانتوں کی رقم بھی اب کروڑوں روپے ہوچکی ہے۔
گزشتہ برس ماہِ رمضان میں چوہدری نذر محمد گوندل پیپلزپارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی کا حصہ بنے تھے اور ان کے ساتھ ندیم افضل چن کے چھوٹے بھائی وسیم افضل چن نے بھی شمولیت اختیار کرلی تھی۔ ندیم افضل چن بھی اسی وقت پی ٹی آئی میں شامل ہونے کیلئے تیار تھے لیکن آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی محبت نے انہیں بری طرح جکڑ رکھا تھا بالکل اسی طرح جس طرح مسلم لیگ (ن) میں چوہدری نثار علی خان کو میاں شہباز شریف کی ”الفت“ نے گھیرا ہوا ہے۔
ندیم افضل چن نے ابتدائی طور پر پیپلزپارٹی پنجاب کی سیکرٹری جنرل شپ سے استعفیٰ دیا لیکن مروّت کے باعث اڑان بھرنے سے کتراتے رہے۔ ندیم افضل چن چونکہ صحیح معنوں میں ایک سیاسی ورکر ہیں اس لئے انہیں بھی اس بارے پختہ یقین تھا کہ وہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر فتح یاب نہیں ہوپائیں گے۔ انہیں یہ بھی یقین تھا کہ پنجاب پیپلزپارٹی کا وہ قلعہ ہے جو اب مسمار ہوچکاہے۔
یہ قلعہ کیسے مسمار ہوا یہ ایک الگ کہانی ہے البتہ ندیم افضل چن نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے کئی سیاسی راہنماؤں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنا سیاسی مستقبل محفوظ کرنا ضروری سمجھا اور اس لحاظ سے یہ درست فیصلہ ہے۔
ندیم افضل چن کی پی ٹی آئی میں شمولیت سے عمران خان کو منڈی بہاؤ الدین سے سرگودھا تک تقویت ملے گی کیونکہ چن فیملی منڈی بہاؤ الدین اور سرگودھا میں کافی سیاسی اثر و رسوخ کی حامل ہے۔ ندیم افضل چن کی وجہ سے انکے ماموں چوہدری نذر محمد گوندل کو بھی بہت فائدہ ہوگا۔ کیونکہ دونوں حلقے جڑے ہوئے ہیں اور ان دونوں حلقوں میں ماموں بھانجے اور ندیم افضل چن کے والد حاجی افضل چن کو کافی معتبر حیثیت حاصل ہے۔
چوہدری نذر محمد گوندل اور ندیم افضل چن جب پیپلزپارٹی میں تھے تو 2008 ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی منڈی بہاؤ الدین کی قومی اسمبلی کی دونوں نششتیں اور پانچ صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی اور ساتھ ہی سرگودھا سے تحصیل بھلوال کی نشست ندیم افضل چن کے حصے میں آئی تھی۔ سرگودھا شہر سے تسنیم قریشی کامیاب ہوئے تھے اور اب شنید ہے کہ تسنیم قریشی بھی پی ٹی آئی میں شمولیت کیلئے تیار ہیں۔
عمران خان نے آئندہ الیکشن سے پہلے اپنا ہوم ورک تقریباً مکمل کرلیا ہے اور اسمبلی تحلیل ہونے میں ابھی چالیس دن باقی ہیں اور اس دوران اتنے اراکین اسمبلی مزید پی ٹی آئی میں شامل ہوجائیں گے کہ مخالف سیاسی جماعتوں کا ”چالیسواں“ بھی ساتھ ہی ہوجائے گا’ پی ٹی آئی نے ابھی تک سب سے زیادہ نقصان پیپلز پارٹی کا کیا ہے اگرچہ پیپلزپارٹی نے اپنا نقصان خود زیادہ کیا ہے لیکن عمران خان کی پنجاب میں جارحانہ سیاست نے نہ صرف پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو بلکہ ووٹروں کو بھی اپنا گرویدہ بنالیا ہے۔
چونکہ آصف علی زرداری نے 2013 ء کے عام انتخابات کے فوری بعد شریف برادران کے دسترخوان پر وعدہ کیا تھا کہ وہ چار سال سیاست نہیں کریں گے اور آخری سال سیاست کریں گے۔ چار سال میں ووٹرز نے اپنی امیدوں کا مرکز عمران خان کو بنالیا اور اب آصف علی زرداری سیاست کررہے ہیں لیکن ووٹرز کا رخ موڑنا تقریباً ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
پیپلزپارٹی کے سینئر راہنماؤں کو خاص طور پر پنجاب میں جس چیز نے نقصان پہنچایا ہے وہ آصف علی زرداری کی ”فارمولا“ سیاست ہے۔ پاکستان فلم انڈسٹری کی تباہی کی وجہ فارمولا فلمیں تھیں۔ تمام ہدائیتکار اور فلم ساز سلطان راہی‘ مصطفیٰ قریشی کے ساتھ انجمن کو کاسٹ کرکے نور جہاں کے 5 گانے فلم بند کرکے فلم سرکٹ میں پیش کردیتے تھے اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
آصف علی زرداری نے اپنی سیاست کا فارمولا یہ متعارف کروایا کہ ہر صورت اقتدار کی کوئی نہ کوئی شکل یا جزیرہ اپنے پاس رکھا جائے۔ اس مقصد کیلئے آصف علی زرداری فارمولا یہ ہے کہ عوامی طاقت سے زیادہ ”زر“ کی طاقت پر زیادہ اعتماد کیا جائے۔
زر کی طاقت پر انہوں نے بلوچستان میں بھی کمال دکھایا اور خیبرپختونخواہ میں بھی اپنے اثرات مرتب کئے۔ مگر اس ”اصول زر“ کے ذریعے وہ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں مطلوبہ نتائج تو حاصل کرنے میں کامیاب رہے لیکن ان دونوں صوبوں میں پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک میں ”رتی برابر“ اضافہ بھی نہیں ہوا ہے۔ جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے تو اہم ترین لوگوں کا چھوڑ کر چلے جانا بتا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب اب پی پی کا قلعہ نہیں ہے البتہ پنجاب میں بھی اب بلاول ہاؤس نما قلعہ ضرور موجود ہے جہاں ”ناامید“ کارکن اور رہنماء آتے جاتے رہتے ہیں۔
آصف علی زرداری کی ”فارمولا“ سیاست نے فلم انڈسٹری کی فارمولا فلموں کی طرح پیپلزپارٹی کو گمنامیوں میں دھکیل دیا ہے۔ ابھی مزید راہنماء بھی ندیم افضل چن کی ”چاننی“ میں راستہ دیکھتے ہوئے پارٹی چھوڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ پیپلزپارٹی کو اپنی نظریاتی حدود کی حد بندی نئے سرے سے کرنا ہوگی وگرنہ اس کے تمام سیاسی ”چن“ اپنی سیاسی روشنی بچانے کیلئے کسی دوسرے آنگن میں روشن ہوجائیں گے پیپلزپارٹی کی قیادت اس پہلو پر غور کرنے کو فی الحال تیار ہی نہیں ہے کہ بلاول ہاؤس کے ”چاند“ بنی گالہ کے آنگن میں اترنے پر کیوں مجبور ہوئے؟ شائد اب ایسا نہیں ہے کہ جس نے پیپلزپارٹی کو چھوڑا وہ کہیں کا نہیں رہا۔
Comments are closed.