ن لیگ فوری بدلہ لیتی ہے
شمشاد مانگٹ
میاں نواز شریف سمیت پورے ”ٹبر“ کی جے آئی ٹی میں پیشی کے دوران دھمکیوں کو جو سلسلہ شروع ہوا تھا اب اس پر عمل درآمد ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر حملے کو کوئی بھی رنگ دے اور تحقیقاتی رپورٹ کو تیار ہونے سے پہلے ہی ”راوی برد“ کردے لیکن اب ان کے چہروں سے نقاب سِرکتا ہوا صاف دکھائی دے رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے باہر گالم گلوچ بریگیڈ جس قسم کی گفتگو کرتا رہا ہے اس پر عدالت عظمیٰ انہیں ابتدائی طور پر روک بھی چکی تھی لیکن نہال‘ طلال اور دانیال نے کھل کر اپنی قیادت کی منشاء کے مطابق عدالتوں پر الفاظ کی گولہ باری کی جبکہ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق اب ”لوہے کے چنے“ کے نِک نیم سے شہرت حاصل کررہے ہیں۔ انہوں نے بھی عدالتوں کو ڈرایا دھمکایا لیکن اب عدالتوں نے آخر کار خاموشی توڑ کر انہیں طلب کرنا شروع کردیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن پر ہونے والے حملے کے ملزموں تک پہنچنے کیلئے تحقیقاتی اداروں کو وہ تمام دھمکیاں سامنے رکھنا ہوں گی جو وہ گزشتہ چھ ماہ میں مسلم لیگی راہنماؤں کے منہ سے براہِ راست سُن چکے ہیں۔ نہال ہاشمی نے جج صاحبان کے بچوں پر عرصہء حیات تنگ کرنے کی دھمکی دی اور اس دھمکی کے باعث انہیں ایک ماہ جیل بھی جانا پڑا لیکن جیل سے باہر آکر انہوں نے پہلے سے زیادہ غلیظ زبان استعمال کی اور سپریم کورٹ کو دوبارہ از خود نوٹس کے تحت کارروائی کرنا پڑی۔
نہال ہاشمی نے اپنی قیادت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ”اصلی شیر“ کو سامنے دیکھ کر پاؤں پر مڑجانے میں ہی عافیت سمجھی اور سینئر وکلاء نے اس بار ان کی جان چھڑائی۔ دانیال عزیز اور طلال چوہدری اپنے ”انجام“ کے قریب ہیں جبکہ خواجہ سعد رفیق لوہے کے چنوں سمیت عدالت میں حاضر ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ محترمہ مریم نواز اور میاں نواز شریف روزانہ کی بنیاد پر عدالتوں کی تضحیک کررہے ہیں۔
تحقیقاتی ادارے یقیناً مسلم لیگ (ن) کے مزاج اور کلچر کو بھی سامنے رکھیں گے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کا کلچر ہمیشہ یہی رہا ہے کہ فوری بدلہ لیا جائے۔ ایک ماہ پہلے جب ایک عاشقِ رسول نے میاں نواز شریف کو انتہائی قریب سے جوتا مار کر فاتحانہ بازو بلند کئے تو رانا ثناء اللہ کے بہنوئی نے ایک ”اجرتی“ جوتا مار کے ذریعے دوسرے دن فیصل آباد میں عمران خان کو جوتا مروانے کی کوشش کی لیکن رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اس جوتا مار ملزم کو مار مار کر ”رنگ“ نیلا کردیا۔ اس کے باوجود غصے سے بھرے ہوئے مسلم لیگی راہنماؤں نے گجرات میں عمران خان کی طرف جوتا پھینکوایا لیکن اس بار بھی نشانہ خطا گیا اور مسلم لیگی قیادت کی ”آتما“ کو ”شانتی“ نہ مل سکی۔ سوشل میڈیا پر مسلم لیگ (ن) کے ہمدرد اور کارکن جو زبان اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کیلئے استعمال کررہے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں کے ارادے کیا ہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن پر 12 گھنٹوں میں دو مرتبہ فائرنگ ہوئی ہے اس کے پیچھے بھی نہال ہاشمی جیسی سوچ والا کوئی کارکن چھپا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
نہال ہاشمی نے جب اپنے ویڈیو بیان میں ججوں کو دھمکایا تھا تو میاں نواز شریف نے ٹوپی ڈرامہ کرتے ہوئے نہال ہاشمی سے لاتعلقی کا اعلان بھی کردیا تھا اور انہیں شوکاز نوٹس بھی دیا گیا تھا۔ اس بات میں کافی وزن دکھائی دے رہا ہے کہ فائرنگ کرنے والا اگر پکڑا گیا اور اس نے تسلیم بھی کرلیا کہ وہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھتا ہے تو مسلم لیگ (ن) اس سے لاتعلقی کا فوری اعلان کردے گی۔
بارہ گھنٹوں میں دو بار فائرنگ کے واقعات کی انکوائری کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب کا حکم کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ میاں شہباز شریف نے ابھی تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 21 بے گناہوں کے قتل میں انصاف نہیں ہونے دیا اور جسٹس نجفی رپورٹ کو دبانے میں طویل عرصہ تک کامیاب رہے۔
بند کمرے میں بیٹھ کر‘ کھلی ہوا میں کھڑے ہوکر اور چہل قدمی کرتے ہوئے بار ہا فائرنگ کے ان واقعات کی کڑیاں کہیں اور ملانے کی جستجو کر چکا ہوں لیکن جونہی مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور وزراء کے بیانات سامنے آتے ہیں تو دل گواہی دینے لگتا ہے کہ فائرنگ کرنے والے حکومتی ”بُکل“ میں چھپے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو 1998 ء میں بھی ایسی ہی صورتحال درپیش تھی اور میاں نواز شریف کو توہین عدالت کے مقدمہ میں پیش ہونے سے خوف آتا تھا۔ پھر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے مسلم لیگی کارکنوں کو پنجاب ہاؤس میں ”قیمے والے نان“ کھلا کر سپریم کورٹ کو ”فتح“ کرنے کیلئے تیار کیا۔ سپریم کورٹ پر حملہ مسلم لیگی قیادت کے ماتھے پر آج بھی کلنک کا ٹیکہ شمار ہوتا ہے۔ یہ وہی ٹولہ ہے جس نے جسٹس ملک قیوم کو سفارتی پاسپورٹ سمیت دیگر کئی مراعات دے کر محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف اپنی مرضی کا فیصلہ کروایا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر ہونے والی فائرنگ کی کڑیاں مسلم لیگ (ن) کے ماضی سے جڑی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا ماضی اس کے چہرے کو بے نقاب کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ شریف برادران موجودہ سنگین صورتحال میں ایسی ”بیوقوفانہ“ حرکت نہیں کر سکتے؟ ان سے سوال ہے کہ پچھلے چھ ماہ میں شریف برادران نے ایک بار بھی عقل سے کام لینے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا البتہ اقتدار کو اپنی مٹھی سے ریت کی طرح پھسلتا ہوا دیکھ کر وہ کوئی بھی حرکت کرنے کو تیار ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر ہونے والی فائرنگ نے شریف برادران کے چہروں سے رہا سہا نقاب بھی سِرکا دیا ہے۔ اگر کسی کو نظر نہیں آرہا تو اس کے لئے یہ قیمے والے نان کی ”کرامت“ ہی ہوسکتی ہے۔ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ فائرنگ کی یہ واردات ”ریڈ کالر کرائم“ کے ذمرے میں آتی ہے کیونکہ مافیا کو جب قانون کا شکنجہ نظر آتا ہے تو ابتدائی طور پر وہ تفتیشی کو ٹارگٹ کرتے ہوئے اور پھر پراسیکیوٹر اور ججوں کو بھی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر فائرنگ نے مسلم لیگ (ن) کو مکمل بے نقاب کردیا ہے۔
Comments are closed.