امریکہ کے بین الا قوامی کھلونے
شمشاد مانگٹ
آج کل کھلونا ہونے کاطعنہ تمام لیڈر ایک دوسرے کو دے رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم 70 سال سے کھلونا بنے ہوئے ہیں۔جنوبی ایشیاء میں غیر ملکی طاقتوں کے لئے بہترین کھلونے کا کردار ہم نے ہی ادا کیا ہے۔ آزادی کے بعد ایک بار قائد ملت لیاقت علی خان کو یہ ”غلط فہمی“ ہوئی کہ ہم کھلونا نہیں ہیں اور پھر امریکیوں نے انہیں سربازار گولی مار کر ختم کردیا ۔
لیاقت علی خان کے بعد ایوب خان تقریباً9سال تک غیر ملکی طاقتوں کا من پسند کھلونا رہے اور یہ سلسلہ بعد میں جنرل یحییٰ خان نے بھی ”خوش اسلوبی“ سے جاری رکھا۔ جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں اس طرح کٹھ پتلی بنے رہے کہ ملک ہی دولخت ہو گیا۔ اگر ہماری اس وقت کی فوجی قیادت کھلونا نہ ہوتی تو ملک کبھی نہ ٹوٹتا۔ بعد ازاں ذوالفقارعلی بھٹو کو دوبارہ اسی احساس نے مروا دیا کہ ہم کسی کا کھلونا نہیں ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ”آغاز محبت“ میں تو استعمار کے لئے استعمال ہو نے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی لیکن رفتہ رفتہ جب عوامی مقبولیت حاصل کرتے چلے گئے تو انہیں زیادہ شدت سے یہ احساس ہونے لگا کہ ہم”زندہ قوم“ ہیں۔
ادھر بھٹو کو زندہ قوم ہونے اور عالمی قوتوں کا کھلونا نہ ہو نے کا احساس ہو چکا تھا اور دوسری طرف امریکیوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو نشان عبرت بنانے کا پختہ منصوبہ بنا لیا تھا۔امریکیوں کے اس مذموم منصوبے کے لئے ”کھلونے“ کا کردار جنرل ضیاء الحق مرحوم کے سپرد کردیا گیا ، جنرل ضیاء الحق مرحوم ایک طرف ”اسلامائزیشن“ کے نام پر کھلونے کا کردار کرتے رہے اور دوسری طرف بھٹو ازم کا مقابلہ کرنے کے لئے مقامی ”سیاسی مارکیٹ“ سے کھلونے تلاش کرتے رہے۔
جنرل ضیاء الحق مرحوم خودار امریکیوں کا کھلونا تھے اور آگے وفاق کی ”سطح پر محمد خان جونیجو اور پنجاب کی سطح پر میاں نوازشریف، جنرل ضیاء الحق مرحوم کے کھلونے تھے ۔ پھر جب محمد خان جونیجو مرحوم کی ”غیرت“ جاگنا شروع ہوئی توجنرل ضیاء الحق نے انہیں سیاسی پردہ سکرین سے ہٹا کر میاں نوازشریف کو اپنا بہترین کھلونا قرار دیا اور اپنی عمر بھی لگ جانے کی دعا دیدی۔
جنرل ضیاء الحق سے ”جی بھر“ کے کھیلنے کے بعد امریکیوں نے انہیں کباڑ میں رکھنے کی بجائے شہداء17اگست کی فہرست میں شامل کرکے ماضی کا قصہ بنا دیا اور مستقبل کی امیدیں میاں نوازشریف سے وابستہ کرلیں۔1988ء کے الیکشن کے بعد محترمہ بے نظیربھٹو کا اسٹیبلشمنٹ نے پہلے مینڈیٹ چوری کیا اور پھر اس یقین دہانی پر انہیں مسند اقتدار پر بٹھایا گیا کہ وہ مقتدر قوتوں کے ہاتھ میں کھلونا بن کر وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں ادا کریں گی لیکن صرف18ماہ بعد ہی ماسٹر مائنڈ قوتوں نے جنرل ضیاء الحق کی باقیات میں سرکاری خزانے سے رقوم تقسیم کیں اور میاں نوازشریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر بٹھا کر جنرل ضیاء الحق مرحوم کی روح کو خوش کردیا گیا ۔ میاں نوازشریف نے صدر غلام اسحاق خان کا کھلونا بن کر کام کرنے سے انکار کردیا اور اسٹیبلشمنٹ نے دونوں کو فارغ کرکے ایک بار پھر محترمہ بے نظیربھٹو سے امیدیں لگا لیں۔ محترمہ بے نظیربھٹو نے ”کھلوناازم“ سے بچنے کے لئے منہ بولے بھائی فاروق لغاری کو آرٹیکل58/2 بی کی نگرانی پر مامور کیا لیکن فاروق لغاری اور سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ”کھلونا“ بن گئے اور 36 ماہ کے بعد محترمہ بے نظیربھٹو کی حکومت برطرف کردی گئی ۔
اسٹیبلشمنٹ نے اس بار نوازشریف کی اچھی طرح ”اوور ہالنگ“کرکے بھرپور مینڈیٹ کے ذریعے انہیں اقتدار دیا لیکن میاں نوازشریف اس بار اپنے ہی بھاری مینڈیٹ کے نیچے دب کر اقتدار گنوا بیٹھے ۔ میاں نوازشریف امیر المومنین بننے کے لئے قانون سازی کرنے کی خواہش رکھتے تھے اور یہ بات ان کے امریکی آقاؤں کو سخت ناگوار گزری اور پھر میاں نوازشریف اقتدار بدر ہو نے کے بعد خود ساختہ جلاوطنی پر رضا مند ہو گئے ۔
1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے امریکیوں کی خواہشوں کا احترام بجا لانے کیلئے ”کھلونا“ بننے پر آمادگی ظاہر کی اور دوسری طرف میاں نوازشریف نے جنرل مشرف سے 10سال تک سیاسی کردار ادا نہ کرنے کا معاہدہ کرکے ثابت کیا کہ جس اسٹیبلشمنٹ کے لئے وہ بطور کھلونا کام کرتے رہے ہیں اسی سے معاہدہ کرکے فرار ہو گئے۔جنرل پرویز مشرف نے تقریباً8سال تک امریکیوں کو خوش کرنے کے لئے ہر طرح کا کام کیا ۔ ہمارے دو کھلونوں کا کردار متضاد اور عجیب رہا ہے ۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم پر امریکیوں نے ذمہ داری ڈالی تھی کہ اسلام پسندی کی آڑ میں جہادی پیدا کرو اور اس مقصد کے لئے امریکیوں نے اربوں ڈالر سرمایہ کاری کی ۔1999ء میں جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ان کی ذمہ داری تھی کہ ”جہادیوں“ کی فصل کاٹو اور اس مقصد کے لئے بھی امریکیوں نے اربوں ڈالر خرچ کردیئے ۔
جو جہادی امریکیوں کے کہنے پرجنرل ضیاء الحق مرحوم نے مدرسوں میں ”تھوک“ کے حساب سے پیدا کیے وہی جہادی جنرل پرویز مشرف نے ”پرچون“ میں امریکیوں کو جہاز بھر بھر کے دیئے ۔ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ محترمہ بے نظیربھٹو کا مفاہمتی سمجھوتہ بھی امریکیوں نے کروایا لیکن بعد میں امریکی اور جنرل پرویز مشرف محترمہ بے نظیربھٹو سے ”شاکی“ ہو گئے اور انہیں بھی” زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“ کی فہرست میں شامل کرکے ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے کھیل سے اکتا جانے کے بعد امریکیوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی عدلیہ آزادی کا ڈرامہ رچا کر پرویز مشرف کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے صدقے اقتدار آصف علی زرداری کو مل گیا تو امریکیوں نے آئی ایس آئی پر کنٹرول کے لئے پہلا وار کیا تاکہ اسے وزارت داخلہ کے ماتحت کروایا جائے ۔ سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے اس کانوٹیفیکیشن جاری کردیا لیکن اسٹیبلشمنٹ کی آنکھیں لال ہونے پر واپس اپنی پوزیشن پر آگئے۔ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے جو گِلا آج میاں نوازشریف کو ہے وہ پچھلی حکومت کو بھی تھا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والی دھمکی اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی اسمبلی میں اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی پر تقریر اس کا ثبوت ہے۔
اکیسویں صدی کی جمہوریت میں فرق صرف یہ آیا ہے کہ اب ہماری سیاسی جماعتیں عالمی قوتوں کے ہاتھوں میں ”کھلونا“ بنی ہوئی ہیں اور اس سے پہلے یہ کام امریکی انتظامیہ جرنیلوں سے لیتی رہی ہے ۔ میاں نوازشریف کو اسٹیبلشمنٹ کے احسانات یاد نہیں ہیں لیکن جنرل پرویز مشرف کی لگائی گئی ہتھکڑی کو یاد کرکے وہ علم بغاوت بلند کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
میاں نوازشریف کی سوچ کو اس وقت امریکہ اور بھارت سمیت افغانستان کی بھرپور سپورٹ حاصل ہے۔ میاں نوازشریف کی بغل میں بیٹھ کر محمود خان اچکزئی جب پاکستان کے خلاف بات کرتا ہے تو ہر پاکستانی کو سمجھ آجاتی ہے کہ میاں نوازشریف اب مقامی نہیں بلکہ انٹرنیشنل قوتوں کے کھلونا بن کر ترقی کرچکے ہیں۔
امریکیوں کے حکم پر جس طرح سے ملالہ یوسف زئی کی ”پذیرائی مہم“ جاری ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملالہ بھی ایک بڑے ”کھلونے“ کے طور پر تیار ہو چکی ہے ۔ ملالہ کو امریکی انتظامیہ کی اس قدر سپورٹ حاصل ہے کہ ہماری وزیر مملکت محترمہ مریم اورنگزیب ملالہ کے ساتھ سرجھکا کر چلنے پر مجبور دکھائی دیں ۔ پاکستانی قوم کو جان لینا چاہیے کہ جو امریکیوں کیلئے کام کرے وہ ملالہ ہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کے راستے کو اپنائے وہ عافیہ صدیقی ہے ۔ شکیل آفریدی جیسے سینکڑوں غدار پاک وطن کے اہم ترین رازامریکیوں کو دیکر دنیاوی ” فلاح “ پا چکے ہیں اور کھلونا بننے سے انکار کر کے تختہ دار پر جھول جانے والے انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ۔
امریکی اشاروں پر ناچنے والے کھلونوں کیلئے اس سے بڑھ کر شرم کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا کے معمولی فائدے کیلئے ختم نبوتﷺ کے حلف نامے میں ہی تبدیلی کرگئے ۔ خوفناک پہلو تو یہ ہے کہ انٹرنیشنل کھلونے ایک دوسرے کو چابی والا کھلونا ہونے کا طعنہ دیکر عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں اور عوام ہمیشہ کی طر ح پہلے سے ہی اس ” فریضے“ کیلئے تیار ہیں۔
Comments are closed.