پاکستان کب تک مجبوررہے گا؟
محبوب الرحمان تنولی
مجھ سمیت پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد 17دسمبر 2019کو یہ خبر سن کر بہت رنجیدہ ہوئی کہ ہمارے وزیراعظم عمران خان ملائشیاء میں اسلامی ممالک کی سربراہان کی کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے، یہ آئیڈیا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پروزیراعظم عمران خان، ترک صدر طیب اردوان اور ملائشین وزیراعظم مہاتیر محمد کا تھا کہ اسلامی بلاک کو فعال کیا جائے۔۔جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کی تاریخ ساز تقریر کے بعد یہ امید ہو چلی تھی کہ مسلم دنیا ایک نئے انداز سے جلوہ گر ہونے چلی ہے۔
اس عہد رفتہ کی پاسداری کرتے ہوئے ملائشین وزیراعظم مہاتیر محمد نے مقبوضہ کشمیر پر جنرل اسمبلی میں اپنایا گیا موقف تمام تربھارتی دباو کے باوجود برقرار رکھا۔۔او آئی سی سے مایوس طیب اروان امہ کے نئے اتحاد پر بہت پرجوش رہے۔ اسلامی ممالک کی مشترکہ کرنسی، اقتصادی تعاون، مشتر کہ ٹیلی وژن سمیت دیگر اہداف تجویز کئے گئے تھے۔لیکن پھرملائشیاء کانفرنس سے پہلے طیب اردوان اورعمران خان ملاقات کا احوال میڈیا کو جاری کردہ تصویرسے عیاں تھا۔
مسلم دنیا کے تین اہم بڑے رہنماوں کی اس منصوبہ بندی کو ہماری گرتی معیشت کی مجبوری نے پاوں سے آ پکڑا۔۔کولالمپور کانفرنس میں شرکت سے قبل ہمیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے سٹیٹ بینک میں رکھوائے گئے ڈالرز کی مدت ری شیڈول کرانی تھی۔۔ادھر اسلامی دنیا جو عملاً ایک عرصہ سے دو حصوں میں منقسم ہے۔۔ ایک طرف ترکی ،ملائشیاء،ایران ، قطر اور امریکی اثر سے نکلنے کے خواہش مند دیگر ممالک شامل ہیں جب کہ دوسری جانب امریکی مفادات کے شکنجے میں دھنستے جارہے سعودی عرب ، یمن ، کویت اور متحدہ عرب امارات ہیں۔۔امریکہ کبھی یہ نہیں چاہتا کہ امہ کو غلامی سے نکالنے کی کوئی بات کرے یا اتحاد بنائے ۔ اس کیلئے وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان پیدا شدہ خلیج کو کبھی کم نہیں ہونے دے رہا۔
امریکی قیادت حالیہ عرصہ میں سعودی آئل فیلڈ پر دہشتگرد حملے کے بعد سعودی عرب کے خرچے پر ایران کو سبق سکھانے کی عجلت میں تھی اور سعودی قیادت کو پیشکش بھی کی تھی کہ وہ اپنے دوست ملک کے دفاع میں ایران پر جوابی وار کرنے کو تیارہیں لیکن سعودی قیادت نے امریکہ کے زریعے جواب نہ دینے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا۔۔مگر بد قستمی سے سعودی قیادت نے وزیراعظم عمران خان پردباو ڈال کر ملائشیاء کی فلائٹ رکوا لی۔طیب اردوان نے پاکستان کی شرکت منسوخی کے بعد واضح الفاظ میں کہا کہ سعودی عرب نے پاکستانی افرادی قوت سعودیہ سے نکالنے اور ڈالرز سٹیٹ بینک سے نکالنے کی دھمکی دے کر پاکستانی قیادت کے پاوں میں بیڑیاں ڈال دیں۔
بدقسمتی سے ہمارے خارجہ مسائل کی کڑیاں داخلی مسائل سے آملتی ہیں۔پاکستان کے ساتھ آزاد ہونے والا بھارت اور بعد میں آزاد ہونے والا چین معاشی میدان میں ہم سے بہت دور چلے گئے ہیں لیکن ہمارے نااہل حکمرانوں نے اور آئین و قانون سے انحراف کرنے والے آمروں نے ملک کو آگے لے جانے کی بجائے ریورس گیئر لگائے رکھے،اداروں او ر سیاستدانوں پر مشتمل پورا سسٹم کرپشن کے باعث ناکارہ ہو چکاہے۔ قرضوں نے ہماری خود مختاری گروی رکھی ہوئی ہے۔ ایف اے ٹی ایف ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اجلاس ہوں یا قرضوں کی اقساط دینی ہوں حکمران ہی نہیں باشعور طبقہ کی سانسیں اٹکی ہوتی ہیں۔
لیکن مجال ہے جو گھمبیر صورتحال سے نکلنے کی کوئی تدبیر کی جائے۔حکمران ایک طرف عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے بے بس ہوتے ہیں تو دوسری طرف فیصلہ سازی میں آزاد نہیں ہوتے ۔۔ ہمارا ایک طبقہ احتساب کے زمرے میں آتا ہی نہیں ہے ۔ کوئی قانون اور آئین کی بالا دستی کی بات کرکے دیکھے وہ منظر سے غائب یا ملک کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث قرار دے دیا جاتاہے۔آئین میں لکھا ہے کہ جو کوئی بھی آئین توڑے گا اس پر آرٹیکل 6لگے گا۔۔ آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ جو کوئی ملک کیلئے جنگیں لڑے تو اسے آئین شکنی پر استثناء ملے گا۔ کیوں کہ جنگیں لڑنے والوں کو صرف ریاست ہی عذت نہیں دیتی بلکہ عوام بھی اپنے سروں پربٹھاتے ہیں۔۔کیا گھر کاسربراہ پورا ٹبر پالے سب کا خیال رکھے اور اپنے ہی ایک بچے کو قتل کردے تو اسے اس لئے چھوڑ دیا جائے کہ اس نے ٹبر پالا ہے۔
ملک کو آگے لے جانے کا واحد حل یہ ہے کہ قانون و آئین کااطلاق سب کیلئے برابرہو۔۔ فوج او ر عوام جدا نہیں ہیں۔ وہ ہم سے اور ہم ان میں سے ہیں یہ ملک سب کو عزیز ہے سب محب وطن ہیں۔۔ اگر کوئی آئین و قانون کی بالا دستی کی بات کرتاہے تو وہ بھی اس ملک کیلئے کرتا ہے ۔ کسی سے خار میں بات نہیں کرتا۔۔عدلیہ کے حالیہ فیصلوں کا احترام نہ ہونا، احتساب کی یک طرفہ ٹرین چلنا۔ انہی سیاستدانوں کو ملک لوٹنے والا قرار دینا اور پھر سب کو باری باری چھوڑ دینا ۔۔ہر کوئی گھاس تو نہیں کھاتا ۔۔ سوچ سمجھ رکھنے والوں کے ذہنو ں میں سوالات تو اٹھتے ہیں۔۔ الزامات غلط تھے یا سسٹم کرپٹ ہے؟ وہ جو احتساب کے نام پر اندرون ملک اوربیرون ملک کروڑوں روپے خرچ کرکے نتائج نہیں دیتے یا نتائج روک دیئے جاتے ہیں اس کا بھی تو حساب بنتاہے ۔
کسی بھی ملک کا آئین مقدس دستاویز ہوتی ہے جو سب کے دائرہ کار کا تعین اور حقوق کا تحفظ کرتی ہے اگر اس سے روگردانی کی جائے تو پھرجنگل کاقانون ہوتا ہے۔۔ اور پھر جہاں جنگل کے قانون ہوتے ہیں وہاں جس کی لاٹھی اس کا بھینس ہوتی ہے۔۔جب تفویض کردہ اختیارات سلب ہونے لگیں بولنے والوں کو خاموش کرا دیاجائے۔۔ رولز کی بات کو سختی سے دبا دیا جائے ۔ پھرملک کیسے آگے چل سکتے ہیں۔
ہماری معاشی غلامی کے پیچھے یہی ناہمواریاں ،لاقانونیت،بد عنوانیاں ، سیاسی رشوتیں،حق کے نام پر بھتے ۔ میرٹ کی دھجیاں اور غیر جانبدارانہ احتساب کانظام نہ ہونا ہے۔۔
ذرا گمان کیجیے ۔ آج اگر ہم نے ملک کی معاشی حالت سنواری ہوتی تو کوئی ہمیں ڈکٹیٹ کرنے کی جرات کرسکتا تھا؟ ادھر جاو ادھر نہ جاو۔۔ہمارا جی ڈی پی سر نگوں نہ ہوتا تو ہم عالمی برداری سے شہ رگ پرشکنجے کسنے کا گلہ کررہے ہوتے؟ یقینا ہماری مسلح افواج با صلاحیت ہیں اور اس کا ثبوت 27فروری 2019کو دے بھی چکی ہے۔۔ مگریہ بھی توسچ ہے کہ ہماری تباہ حال معیشت دس دن کی جنگ برداشت نہیں کرسکتی۔ زمانہ امن میں ٹماٹر، آٹا، چینی، بجلی، گیس ، پٹرول ہماری پہنچ میں نہیں آرہے ۔۔ اگر باضابطہ جنگ شروع کردیں تو پھر کیا حالت ہوگی۔
سیاسی جماعتیں یاسیاستدان مستقبل کی پیش بندی سے عاری ہیں۔۔پچھلی تین دہائیوں سے ہم نے کبھی ایسا ہوتے نہیں دیکھا کہ اپوزیشن اور حکومت نے مل بیٹھ کر ملک کو مسائل کے بھنور سے نکالنے کی کوشش کی ہو۔۔یہ وہ لوگ ہیں کہ سابق حکومت نے اپنے دور کے آخری سال میں چھری پانی میں دیکھ کرایسا الیکشن دوست اور عوام دوست بجٹ بنایا تاکہ عوام کو دھو کہ دے کر آنے والے حکومت کو پھنسا دیں۔۔ اس طرح کا وژن ہو تو پھر ملک کیسے آگے چلے؟۔۔اوپر سے تحریک انصاف کی اناڑی حکومت نے سارازورمعیشت بچانے پر لگا دیا اورعوام پر مہنگائی کاایسابوجھ ڈال دیا ہے جس سے لوگ فاقوں اور خودکشیوں پرمجبورہیں۔۔روزگاردینے کاوعدہ کیا تھاروزگارچھینے جارہے ہیں۔
عمران خان کی تقاریر سے متاثر ہونے والے ہم ایسے لوگ سر پکڑ کربیٹھے ہیں۔ 14ماہ کی حکومتی کارکردگی زمین پر نظر نہیں آتی ۔۔ ہاں حریم شاہ کی شکل میں اخلاقیات کے جنازے اٹھ رہے ہیں۔۔ وزراء کی میڈیا پر کہانیاں چل رہی ہیں۔۔ دو لڑکیو ں نے پورے ملک کی اخلاقیات کا جنازہ نکالا ہوا ہے۔۔ ایان علی تو ایک ماڈل تھی ۔۔ شاید خود بھی اچھی خاصی کمائی کرتی ہو گی۔۔ منی لانڈرنگ بھی اسی لئے کی کہ اس کے باہر آنے جانے پر کسی کو شک نہیں ہوتا تھا کہ وہ مالی طور پر بہتر پوزیشن میں تھی ۔۔ لیکن پی ٹی آئی کی نام لیوا یہ دو لڑکیاں کسی امیر بیک گراونڈ کی حامل بھی نہیں ہیں لیکن فارن ٹوئرز ، فائیو سٹارز ہوٹلو ں میں قیام، وی آئی پی پروٹوکول بھی انجوائے کررہی ہیں اوروزراء کو بلیک میل بھی کررہی ہیں۔۔ مجال ہے کوئی پوچھ سکے۔۔کوئی تو پیچھے ہے ناں۔ ورنہ ادارے بھی ایسے گونگے بہرے نہیں بنے ہوئے۔
معیشت تباہ حال، قرضوں کا بوجھ، سسٹم میں خرابیاں ، میرٹ نہ ہونا، آئین میں متعین دائرہ کار میں نہ رہنا۔کرپشن، منصفانہ احتساب کا فقدان ،حکومتوں کے ذمہ داریاں کسی اور کے پاس۔ حکومت کسی اور کام پر۔۔سیاستدانوں کی نہ ختم ہونے والی لڑائیاں۔۔ کچھ بھی تودرست سمت میں نہیں چل رہا۔۔پھرہم غلام کیسے نہ ہوں۔۔ ہم آزادانہ فیصلے کیسے کریں؟ بحثیت قوم ہم اس بے سمت سفر سے کب واپس آئیں گے؟تمام سٹیک ہولڈرز کو انا پرستیاں چھوڑ کر ملک کو اس بھنور سے نکالنے کیلئے مل بیٹھ کر پیش بندی اور آئین میں تفویض کردہ ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔۔ یہ غیر یقینی کی صورتحال برقرار رہی تو اچھی تقاریر کرنے اور سبز باغ دکھانے والا وزیراعظم بھی غیرفعال ہو کر خراب سسٹم میں پھنس کر آوٹ ہو جائے گا۔
امریکہ ایران محاذ آرائی اور جنگ کے منڈلاتے بادلوں نے ہمیں اور غیریقینی کی پوزیشن میں دھکیل دیاہے۔ ۔ٹرمپ نے عمران سے ملاقات میں کشمیر پر ثالثی کا جو دانا پھینکا تھا اس کے بدلے افغانستان سے نکلنے میں ہماری مدد لے لی۔۔ ہمیں کیا ملا؟ کسی کے پاس ہے کوئی جواب؟اب ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کا سوچا توہماری فوجی تعلیم و تربیت کا راستہ کھول دیا تاکہ ان کو مزید ڈبل مائنڈ رہنے دیا جائے۔
امہ کو سبق سکھانے کیلئے امہ کے ہی ایک ملک کویت میں امریکی فوج اکٹھی ہو رہی ہے۔ خدانخواستہ جنگ چھڑگئی تو ہم کس جگہ ہوں گے ایک بار پھرہمیں رائے دینے میں بھی اپنی مجبوریوں کا پہلے حساب کرنا پڑ رہا ہے۔۔ پاکستان کب تک مجبوررہے گا؟
Comments are closed.