آخری تنکا
محمد مبشر انوار
اس دنیا میں لافانی عروج فقط اللہ کی ذات پاک کو ہے جبکہ باقی ہر شے فانی ہے اور اسے فنا ہونا ہے،اسی طرح قوموں کی زندگی میں عروج و زوال کی کہانی ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی،جو کبھی ایک قوم کو بلندیوں پر لے جاتی ہے اور کبھی دوسری قوم کو۔ یہی نظام زندگی اور قانون قدرت ہے کہ ترقی و اقتدار اسی کا نصیب ہے جو حالات کے مطابق خود کو ہم آہنگ رکھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو نکھارتا چلا جاتاہے،خود کو باقی دنیا اور مد مقابل سے ہمیشہ آگے رکھتاہے،سر بلندیاں اور رفعتیں اسی کا نصیب ٹھہرتی ہیں،اپنے حلقہ احباب کی قیادت و سیادت اسی کے سر سجتی ہے۔
تاریخ کا یہی سبق ہے اورہمیں تاریخ یہی بتاتی ہے،اس کے ساتھ ساتھ،تاریخ کے ورق پلٹیں تو یہ حقیقت بھی واضح نظر آتی ہے کہ بعد از اسلام،مسلمانوں نے جنگوں میں مفتوحین کے ساتھ سلوک یکسر بدل دیا اور مفتوحین کے حقوق کو بھی اہمیت دی جانے لگی،ان کے ساتھ انسانوں کا سلوک کیا جانا لگا اور حقیقی انصاف کی داغ بیل ڈالی گئی۔ در حقیقت مسلمان حکمرانوں کا یہی وہ رویہ تھا جس نے غیر مسلموں کو اسلام کی طرف راغب کیا اور مفتوحہ علاقوں کے پسے ہوئے،دھتکارے ہوئے لوگ جوق در جوق حلقہ اسلام میں داخل ہوتے گئے۔
برصغیر کی تاریخ جہاں پرانی ہے وہیں یہ حقیقت بھی اتنی ہی پرانی ہے کہ یہاں کے باشندے،معروف وقت سے ہی،ذات پات کے گندے نظام میں جکڑے ہوئے ہیں،جہاں ان کی زندگی،موت سے بھی بد تر رہی ہے۔ اسلام کے یہاں وارد ہونے کے بعد،نچلی ذات کی اکثریت اسلام کے مساواتی نظام و عدل و انصاف سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوئی،تو اونچی جاتی کے ہندوؤں کو یہ ایک آنکھ نہ بھائی کہ کل تک کے ”غلام“ ان کے برابر بیٹھنے لگے اور انہیں زندگی کے وہی حقوق میسر ہو گئے،جن کر طرف دیکھنا تو دور سوچنا بھی ان نچلی ذاتوں کے لئے کسی گناہ سے کم نہیں تھا۔
مسلمانوں نے اس خطہ زمین پر تقریباً ہزار سال تک حکومت کی اور اس دوران،گو کہ مشیران میں اکثریت ہندوؤں کی ہی رہی مگر اصلاحات بالعموم ساری رعایا کے لئے ہوتی رہی۔ اس عرصہ میں ہندوؤں کے دل پر کیا بیتتی رہی،وہ ان کے آج کے اقدامات سے عیاں ہے کہ وہ آج کے ہندوستان میں کس طرح اقلیتوں بالعموم اور مسلمانوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں یہ امر بر محل ہے کہ یہود و ہنود کی مسلم دشمنی مسلمہ حقیقت ہے اورآج جب وقت کی زمام کار دنیا کی ان دو مکار ترین قوموں کے ہاتھ ہے،وہ انتہائی بھرپور طریقے سے مسلمانوں کی بیخ کنی میں مصروف عمل ہیں۔
ایک طرف اگر براہ راست مسلمانوں کی زندگی دوبھر کر رکھی ہے تو دوسری طرف بالواسطہ طریقے سے عالمی برادری کو اپنے چنگل میں اس طرح قابو کر رکھا ہے کہ وہ کسی طور بھی اپنے مفادات کے خلاف کوئی قد م اٹھانے کے لئے تیار نہیں اور ان دو قوموں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ انسانی حقوق کا واویلا کرنے والی عالمی برادری،جو جانوروں کے حقوق تک کے لئے آواز اٹھاتی ہے،دنیا بھر میں بہتے خون مسلم پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
دوسری طرف اہم ترین اور امیر ترین مسلم ممالک کا رویہ بھی انتہائی مجرمانہ غفلت کا شکار نظر آتا ہے کہ جانتے بوجھتے ان ممالک کے ساتھ تعلقات میں نہ صرف گرم جوشی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے بلکہ ان ممالک میں کثیر سرمایہ کاری کر کے در حقیقت مسلمانوں کے نا حق بہتے خون سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔ مسلم حکمرانوں کی اس دو عملی نے ہی دالاالکفر میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے حیات اجیرن کر رکھی اور ان ممالک میں ریاستی دہشت گردی کے سائے میں مسلمانوں کو تہ تیغ کیا جارہا ہے.
ایک طرف ان سے اسلام کے خلاف نعرے لگوائے جاتے ہیں تو دوسری طرف ان سے بتوں کی جے جے کار اگلوائی جاتی ہے،اس کے باوجود انہیں قتل کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔
پڑوسی ملک بھارت نے بعینہ اسرائیلی ماڈل اختیار کر رکھا ہے اور ببانگ دہل ہندوستان کے مسلمانوں پر بدترین ریاستی دہشت گردی مسلط کر رکھی ہے،نریندر موذی،جسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک وقت میں امریکہ بہادر نے امریکہ میں بین کر رکھا تھا،آج اس کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے مسلمانوں کے قتل عام پر نہ صرف خاموش تماشائی ہے بلکہ خطے میں ابھرنے والی دیگر طاقتوں کے خلاف اسے علاقے کا تھانیدار بنانے پر تلا ہے۔
یہ الگ بات کہ ہندوستان کی اپنی اہلیت اس قابل نہیں کہ وہ علاقے میں ابھرتی طاقتوں کے خلاف،امریکی مفادات کا تحفظ کر سکے،اس کے بس میں صرف اتنا ہے کہ نہتے مسلمانوں پر ریاستی دہشت گردی کا بدترین مظاہرہ کرکے ان ہزار سالوں کی جلن کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے،جو مسلمانوں نے اس خطے پر حکومت کرکے اس کے سینے میں جلا رکھی ہے۔بابائے قوم نے ہندو بنئے کی مکاری کے متعلق صحیح پیش گوئی کی تھی کہ مسلمانوں نے ہندو کو رعایا کے روپ میں دیکھا ہے،اقتدار میں اس کا چلن مختلف ہو گا،آج پاکستان کی مخالفت کرنے والوں نے اس حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ کس طرح مکار بنئے نے پہلے سکھوں کو کھڈے لائن لگایا اور آج مسلمان براہ راست اس کی زد پر ہیں۔
یہ بھی قانون قدرت ہے کہ جب تک انسان خود اپنی حالت تبدیل کرنے کے لئے تیار نہ ہو،اللہ رب العزت بھی اس کے ساتھ نہیں ہوتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب اللہ رب العزت کو کسی کی حیثیت تبدیل کروانا مقصود ہو تو رب کریم ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے جو اس کی حیثیت تبدیل کرنے میں بنیادی شرط کا درجہ رکھتے ہوں۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ جیسے ہندوستان میں وہ حالات پیدا ہو چکے ہیں،جس میں ہندوستان کی اقلیتیں،ہندو سامراج کے چنگل سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی،کشمیر سے بنگال تک ہندوستانی نریندر مودی کے اقدامات کے خلاف سراپا احتجاج ہیں.
جگہ جگہ حکومتی اقدامات کے خلاف جلسے و جلوس نکل رہے ہیں،خانہ جنگی کی سی صورتحال پیدا ہو چکی ہے،جس کا منطقی انجام ماسوائے علیحدگی کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ ان جلسے و جلوسوں میں اب اقلیتیں ہی شامل نہیں بلکہ ہندو سول سوسائٹی ان احتجاجوں کو لیڈ کرتی نظر آ رہی ہے،جو ہندوستان کے سیکولر تشخص کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کو چیلنج کر رہی ہے۔ مودی حکومت کے موجودہ اقدامات سے دو ہی نتیجے برآمد ہو سکتے ہیں کہ مودی حکومت متنازعہ قوانین کو واپس لے یا پھر احتجاجوں کو بزور کچل دے۔
بظاہر ان متنازعہ قوانین کی واپسی نا ممکن نظر آتی ہے کہ یہ قوانین اس لئے بنائے ہی نہیں گئے اور دوسری صورت کا منطقی نتیجہ یہی ہے کہ ہندوستان ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے اور تمام اقلیتیں دلی سرکار کے خلاف اتنی شدت سے بروئے کار آئیں کہ ہندوستان کا وجود عالمی نقشے سے ختم ہو جائے اور اس کی جگہ کئی ممالک بن جائیں بعینہ ویسے ہی جیسے روس میں ہوا تھا۔ کیا متنازعہ قوانین واقعی اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوں گے،اقلیتیں جو اس وقت بھرپور سراپا احتجاج ہیں،اس آخری تنکے کا بھرپور فائدہ اٹھا سکیں گی؟کیا ہندوستان کی ریاست اس آخری تنکے کا بوجھ برداشت کر سکے گی؟
Comments are closed.