بی آر ٹی کا انتظار ہے
خالدہ نیاز
ہشت نگری، فردوس، خیبر بازار، صدر’ کنڈیکٹر کی آواز سُن کرمیں بھی بس میں سوار ہو گئی کہ ہشت نگری تک مجھے بھی جانا تھا۔ بڑی مشکل سے بس میں سوار ہوئی تو دیکھا کہ خواتین کے لئے مختص سیٹ پرایک لڑکا براجمان ہے، خیرجوں توں کرکے مجھے بھی ایک سیٹ مل گئی۔
یہ مرحلہ بخوبی طے ہوا تو اپنے بیگ کی فکر نے آن گھیرا کہ خدانخواستہ کہیں چوری نہ ہوجائے، اس کے علاوہ اپنی فکر ذرا زیادہ تھی، اس لیے ایک ہاتھ سے اپنا بیگ اور دوسرے سے گیٹ کو مضبوطی سے تھام کر بیٹھی رہی کہ دھکم پیل کی وجہ سے کہیں گرنہ جاؤں۔
ایسے میں اگر بس ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر کہیں پھنس جائے توسواریوں کا پھراللہ ہی حافظ ہے۔
صوبے کے دارالحکومت میں ٹریفک کا مسئلہ شروع ہی سے چلاآرہا ہے لیکن جب سے بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے پرکام شروع ہواہے ٹریفک کے مسئلے نے اژدهے کی طرح منہ پھاڑ کے سر اٹھایا ہوا ہے۔
گزشتہ تقریبا تین ماہ سے شہر میں جدھر بھی آپ جائیں ٹریفک جام ہی ہوتا ہے اورمنٹوں کا سفرگھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ ایسے میں رکشوں اورٹیکسیوں کے ڈرائیوروں نے بھی اپنی چھریاں تیز کرلی ہیں۔
پہلے اگر وہ کسی مقام تک سو روپے کا کرایہ لیتے تھے تو اب ایک سو اسی لیتے ہیں۔وجہ ان کے پاس بھی بڑی معقول ہوتی ہے۔ “باجی رش ہے بہت” ، ہم نے بھی دفتر پہنچنا ہوتا ہے مجبوری میں زیادہ پیسے دینا ہی پڑتے ہیں۔
بی آر ٹی کا سنگ بنیاد وزیراعلی خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے 19 اکتوبر2017 کو رکھا تھا۔ صوبائی حکومت کے مطابق اس منصوبے کیلئے سات ارب 87 کروڑ روپے کی 300 ایئر کنڈیشن بسیں مہیا کی جائیں گی جن میں خواتین کیلئے الگ کیبن ہوں گے اور اس میں روزانہ 5 لاکھ مسافر سفر کرسکیں گے۔
حکومت کے مطابق تقریباً 57 ارب روپے کی لاگت کا یہ منصوبہ 6 مہینے کی ریکارڈ مدت میں مکمل کیا جائے گا، 26 کلومیٹر طویل بس ریپیڈ ٹرانزٹ سسٹم جی ٹی روڈ پر چمکنی سے شروع ہو کر حیات آباد پر اختتام پذیر ہو گا جبکہ شاہراہ کے دونوں اطراف 10، 10 فٹ کی خصوصی ٹریک بھی بچھائی جا ئے گی۔
اس کے 8 فیڈر روٹس ہوں گے اور ہر سٹاپ کا درمیانی فاصلہ دو منٹ کا ہوگا، ہر بس سٹاپ پر سا ئیکلوں کیلئے الگ سٹینڈز ہوں گے۔
بہرحال منصوبے کي وجه سے جہاں ایک طرف شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے وہیں لوگوں کو کچھ اُمید بھی ہے کہ شاید منصوبے کی تکمیل سے ٹریفک کے مسائل کسی حد تک حل ہوجائینگے۔
ویسے بی آرٹی سے جہاں شہریوں نے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں وہاں منصوبے سے بسوں اور ویگنوں کے ڈرائیورز اور کنڈیکٹرز کے بیروزگار ہونے کا خدشہ بھی بے۔
چند روز قبل مقامی ٹرانسپورٹرز نے اس منصوبے کے خلاف بطور احتجاج اپنی گاڑیاں بھی کھڑی کر دی تھیں۔ خیراگرحکومت چاہے توان ڈرائیورز او کنڈیکٹرز کومتبادل روزگار یا کوئی قابل عمل لائحہ عمل فراہم کرسکتی ہے کیونکہ یہ لوگ بھی اس شہر کے باسی ہیں اور روزگار چھننے کی صورت میں آخریہ لوگ کدھر جائیں گے؟
ہرمنصوبے کے فوائد او نقصانات ہوتے ہیں تاہم یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ بی آرٹی سے پشاور کے ٹریفک کے مسائل کم ہوتے ہیں یا زیادہ فی الحال تو مسائل ہی مسائل ہیں؟
اپنی بات کروں تو اگرچہ بی آرٹی کی وجہ سے میں اکثردفترلیٹ پہنچتی ہوں تاہم یہ موہوم سی اُمید بھی ضرور ہے کہ چلو بی آرٹی مکمل ہونے کے بعد ٹریفک کا مسئلہ کچھ تو حل ہوجائے گا ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ دنیا امید پہ قائم ہے اورہم نے بھی بی آرٹی سے امیدیں لگا رکھی ہیں۔
Comments are closed.