کارکردگی کا امتحان
ریحام خان
کہیں روشن پاکستان،کہیں نیا پاکستان کے نعرے کہیں
میٹرو اور اورنج ٹرین پر زور اور کہیں ایک خیالیسونامی سے دوسری سونامی تک کے وعدے اور ان سب کے بیچ عوام جو امید کرنے کی بھی اب ہمت نہیں کرتے۔
ادھورے سے گلے شکوے کر کے تھک جاتے ہے۔کہاں جائے وہ ماں جس کے دل مذمتی بیان سے اب بھلایا نہیں جا سکتا۔کہاں جائے وہ نوجوان جو جلسوں میں نعرے لگاتاتو اچھا لگتا ہے مگر کابینہ کا حصہ نہیںبن سکتا۔
عوام ووٹ ڈالنے بھی دور دور سے آئے اور جیتنے کے فورا بعدہی اس کو اگلے پانچ سالوں کے لئے بھلا دیا جائے۔ ساتھ میں الیکشن کے دوران وعدوں کو جوش خطابت کا نام دے کر فراموش کر دیا جائے ۔گھر کو روشن کرنا ہو تو اپنی بجلی بنانے کے لئے جنریٹر اور گھر کا چولھاجلانے کے لئے گیس کا سلنڈر،پانی نلکوں میں آتا رہے اس کے لئے ٹینکر یا زیر زمین کھدائی کرکے اپنے پانی کا انتظام گھر میں کوئی ڈکیت یا دہشت گرد نہ آئے
اس کے لئے اپنے گارڈ کا اہتمام،گورنمنٹ ہسپتالوں اور سکولوں کی خستہ حالی دیکھ کر پرائیویٹ سیکٹر کا استعمال۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ حکومت اپنے شہریوں کو نہیں دے سکتی تو ووٹ کس لئے مانگتی ہے؟جب بنیادی ضروریات، پانی صحت تعلیم روزگار اور جان کا تحفظ ہی دینے میں نا اہل ہے تو کیا ہمیں انہیںاپنا صاحب بنا کر اس لئے رکھا ہوا ہے کہ ہم اپنی
غلامانہ سوچ سے مجبور ہیں؟گاندھی نے کہا تھا کہ ہمارے ایکشن ہماری ترجیحات کا تعین کرتے ہیں۔باچاخان سانحہ میں ہمارے نوجوان ایک بار ہماری پھر نااہلی کی وجہ سے قربان ہوگئے ہیں۔ ایک بار پھر آبدیدہ مائوں کو میں نے گلے سے لگایا تو میں ان کو یہ کہہ کر تسلی نہیں دے سکی کہ تم شہید کی ماں ہو۔
اس انسانیت سوز واقعہ کے بعد وہی گھسی پٹی روٹین شروع ہو گئی۔ میڈیا کے سوالات، سیاستدانوں کے مذمتی بیان، آئی ایس پی آر کے بیان ۔۔کہ قاتل کون تھا؟ اسلحہ کہاں سے آیا؟ روٹ کیا تھا وغیرہ وغیرہ۔۔غرض یہ کہ اب ان سب کا کیا فائدہ؟ اب سی ایم کے وہاں جانے سے کیا بنے گا؟
اب انٹیلی جنس کی رپورٹ منظر عام پر لانے سے کس دہشت گرد کا راستہ رکے گا۔ بعد میں واقعہ کی تفصیلات اور حقائق تک صحافی بھی پہنچ جاتے ہیں۔خدارا ہم عوام نے آپ کو ایسے واقعات کو روکنے کی ذمہ داریاں دے رکھی ہیں۔
اگر نا اہلی ہے تو معذرت اور استعفیٰ کی توقع رکھتے ہیں۔ کتنے اور اے پی ایس اور کتنے اور سال درکار ہوں گے آپ کو اپنا کام سمجھنے کے لیے۔ ہم تو آپ سب کے بیرونی دوروں کو اس لئے برداشت کرتے ہیں کہ شاید کوئی ایک دو گر ہی سیکھ آئیں۔ہم تو آپ کو 8pm ٹی وی پر اردو ڈرامے کی جگہ بھی دے چکے ہیں کہ شاید آپ کچھ مقبولیت کی خاطر ہی کوئی کام کر لیں۔
ہم تو آپ کے آگے فریاد کر کر کے تھک گئے ہیں کہ اگر آپ کے سینے میں دل نہیں تو اپنی سیاست کے لئے صحیح اقدامات کر لیں۔یہ کہہ دینا کہ دہشت گردی کی جنگ میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔اس قسم کے سانحات تو ہوں گے تمام تعلیمی اداروں کو تحفظ نہیں دیا جاسکتا۔
ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں ان جوانوں کو جنہوں نے مقابلہ کیا اور مزید نقصان ہونے سے بچا لیا۔یہ جنگ ہم جیت رہے ہیں۔گزارش یہ کہ عوام مجبور ہیں کہ آپ لوگ ان کی قسمتوں کا فیصلہ کر رہے ہیں لیکن بیوقوف نہیں ہیں۔ ہماری بے بسی کا مذاق نہ اڑایا جائے۔ 14ہزار آپریشن کرنے سے انتہاپسندسوچ کا خاتمہ نہیں ہو گا۔
پانچ دہشت گرد مارے گئے، پانچ سو اور تیار بیٹھے ہیں یہ فیکٹری چوبیس گھنٹے قاتل بنا رہی ہے دہشت گردصرف وزیرستان میں ہی نہیں پائے جاتے اسلام آباد میں بھی ہیں، پنجاب میں بھی ہیں یہاں بھی آپریشن کرنا ہوںگے۔
ہر تعلیمی ادارے کو محفوظ نہیں کرنے کی ضرورت لیکن ان سکول اور کالجوں کو جو باچا خان یونیورسٹی کی طرح غیر محفوظ جہاں خطرہ زیادہ ہوان کے لئے حفاظتی اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔تمام تعلیمی اداروں میں بھاگنے کے راستے یعنی کسی حادثے میں باہر نکلنے کا راستہ اور اسٹاف کو ایمرجنسی ڈرل یعنی ہنگامی حالات سے نکلنے کی تربیت دینی چاہیے۔
ایسا سسٹم ہونا چاہیے کہ خطرے کی صورت میں ایک بٹن دبانے سے کنٹرول سینٹر کو فوری اطلاع ہو تاکہ فوری ایکشن لیا جائے۔ ہمسایہ ملک افغانستان سے سم کنٹرول کا معائدہ کیا جائے تاکہ وہاں کی سم پاکستان میں استعمال نہ ہوسکے۔ اساتذہ اور طالب علموں کا یہ کام نہیں کہ وہ دہشت گردوں سے لڑنے کے لئے تیار رہیں۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حفاظتی ادارے اور حکومت ناکام ہےمیں کوئی سیکورٹی ایکسپرٹ تو نہیں لیکن کچھ واضح حفاظتی تدابیر نہیں کی جارہیں۔ وجہ پولیٹیکل وِل کی غیرموجودگی ہے، وجہ ہماری غلط ترجیحات، ووٹ اکٹھا کرنے کی جستجو ہے جانیں بچانے کی لگن نہیں۔ پوائنٹ سکورنگ آسان ہے ذمہ داری سے اپنا کام کرنا مشکل۔کے پی کے اور بلوچستان میں جب خون بہتا ہے تو اس کے چھینٹے اسلام آباد کے وائٹ ہائوس پر نہیں پڑتے۔ یہاں سبزہ بھی ہے ،پانی بھی ہے ،سکوں بھی اور موسم بھی خوشگوار ہے۔
بار با ر جب ایسے سانحات ہوتے ہیں تو ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر ایک نظر دیکھ کر آنے میں کچھ گھنٹے اس پرسکوں زندگی کے برباد ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی عوام ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی مصروفیت کو سمجھتے ہی نہیں۔ایسی توقعات رکھتے ہے جو حقیقت پر مبنی ہی نہیں۔
کیا یہ بہت نہیں کہ یہ سب اپنے اپنے اڈے سنبھالے ہوئے ہیں اور کوئی انہیں ہٹا نہیں سکتا جبکہ سب ان کی پرفارمنس سے نالاں ہیں۔آپ اتنی ڈھٹائی کر کے دکھائیں تب میں مانوں۔
Comments are closed.