عبدالظہور مشوانی کی یاد میں

محبوب الرحمان تنولی

عبداظہور سے میر ی پہلی ملاقات ستمبر 1992میں ہوئی،ہم دونوں روز نامہ خبریں کے بانی کارکنوں میں شامل تھے ،ستارہ مارکیٹ میں واقعہ دفتر میں روزانہ ہماری ملاقات ہوتی تھی وہیں تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ وہ بھی میر ے علاقے کے رینے والا ہے ،شاہد اسی وجہ سے ہماری دوستی ہوگئی،میں آج بھی سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے، مختلف مزاج کے حامل دوست تقریباً سترہ سال دوستی کے بندھن میں بندھے رہے ،کھبی کو ئی بڑا ختلاف رائے سامنے نہیں آیا جو ہمیں الگ کرنے کا باعث بنتا ۔اسلام آباد سے صحافت کی شروعات کے وقت میں راولپنڈی کے علاقے فوجی کالونی میں رہائش پذیر تھا جب کہ عبداظہوراسلام آباد کی گلشن مارکیٹ میں وزارت تعلیم کے کسی کولیگ کا رومیٹ تھا ، چند ماہ بعد جب میں اسلام آبادمنتقل ہوا تو ہماری ملاقاتیں بڑھ گئیں، میں رات کوڈیوٹی کے بعد صبع اسلام آباد کے شہیدملت سیکرٹریٹ میں عبداظہور کے دفترمیں اتنا تسلسل سے جاتا تھا کہ وزارت صحت کے بعض لوگ بارویں منزل سے واپسی پر جب لفٹ میں میرے ساتھ اکٹھے ہوتے تومجھ سے پوچھتے تھے خان صاحب چھٹی ہو گئی؟ خان صاحب اثبات میں سرہلا دیتے تھے۔عبداظہور کی شخصیت میں بلا کی سی خود اعتمادی،لہجے میں کرختگی اور حس مزاح نمایاں خوبیاں تھیں،وہ بہت ساری ایسی باتیں منہ پر کرجاتا تھا جن کا مثبت ردعمل آنے کی توقع نہیں کی جاسکتی،اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اسے ایک بار یہ مشورہ دیا تھا !!!جھوٹ بولنا گنا ہ اور بری عادت سہی لیکن بعض صورتوں میں جب کسی کا جھوٹ سے بھلا ہوتا ہو تو جھوٹ بول لیا کریں،وجہ یہ تھی کہ اس نے بھرے نیوز روم میں ایک بڑی عمر کے رپورٹر کو کھری کھری سناہیں اور وہ کھسیانی ہنسی ہنستے ہو ئے چلا گیا ،،میں نے اس کے جانے کے بعد احتجاج کیا کہ آپ کو اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا،جواب آیایہ شخص بہت کرپٹ ہے ،دفتر کے ایک کولیگ سے فون کونیکشن لگانے کی سفارش کرانے کے ایڈوانس پانچ ہزار روپے لئے ہیں۔بات سچ تھی ۔کوئی اور ہوتا توشاہد مصلحت سے کام لیتا مگر عبداظہور سے یہ دوغلا پن نہیں ہوپاتا تھا اسی لئے اس کے منہ میں جو آیا کہہ دیا۔میں ایک بات کا کریڈ ٹ اس کی موجودگی میں بھی لینے کی کوشش کرتا تھا کہ میں نے بار بار ٹوک کر اس کے جارحانہ پن کو کم کیا ۔وہ مذاق میں کبھی کھبی ایسی بات کرجاتا تھاکہ سننے والے کو گھنٹوں تکلیف ریتی ،لیکن چونکہ وہ جو سوچتا تھا کہہ جاتا تھا بات دل میں رکھنا اس کا مذاج نہیں تھا۔ایک بار ہماری تین چاردن ملاقات نہیں ہوئی تھی میں نے فون کیا تو اس نے غیر حاضری کا سبب پوچھا ،میں نے بتایا میرے والد صاحب کے ایک چچاذاد بھائی تھے وہ فوت ہوگئے تھے،،اس نے میرے منہ سے میری بات چھینتے ہو ئے کہا چلواچھا ہوا رشتہ داروں کی جان چھوٹ گئی،،میں نے احتجاجاً فون بند کر دیا۔شام کو دفترمیں ہماری ملاقات ہوئی تووہ ہنستے ہنستے یہ کہ کر مجھ سے بغلگیر ہوگیا،او جناب میر ی گل مائنڈ نہ کیتا کرو،،شاہد کو ئی نا آشنا ہوتا توپھر اس سے بات نہ کرتا۔ستارہ مارکیٹ کے دفتر سے رات ساڑھے دس بجے ہم ساتھ نکلتے تھے میں جی سیون فور اوروہ گلشن مارکیٹ میں ریتا تھا، ہم گول مارکیٹ کے سامنے دوسڑکوں کے بیچ گھاس پر بیٹھ جاتے ،،ان دنوں ہم دونوں چھڑے تھے ،گھنٹوں دکھ سکھ بانٹتے ریتے ! ایک دن اسے نہ جانے کیا سوجی آفس پہنچتے ہی مجھ سے کہنے لگا !!!چھٹی لے لو ہم نے کل بابا تنہکہ کے پا س جانا ہے، اگلے دن ہم چل پڑے ،شام کے وقت وہاں پہنچنے سے پہلے ہم بابا کے بارے میں بہت باتیں کرتے رہے ،اس نیت سے مخالفانہ گفتگو بھی کی کہ ہمیں بتایا گیا تھاکہ باباجی کو سب پتہ چل جاتا ہے، لیکن ایسا ہوا نہیں۔رات بارہ بجے تک عبداظہور مشوانی مجھے ساتھ لے کر بابا کے پنڈال کے سامنے بیٹھا رہا ،کہہ رہا تھا ! دیکھتے ہیں باباجی رات کو کیا کرتے ہیں،صبع اجتماعی دعا کے بعد لاٹھیاں کھانے کا وقت آیا تومیں نے معاہدے کے مطابق بابا جی کا سامنا نہیں کیا۔جب کہ عبداظہور مشوانی نے ایک نہیں دوبارقطارمیں کھڑے ہوکرلاٹھیاں کھاہیں،اسلام آباد واپس آئے ابھی چند دن گزرے تھے کہ ہم دونوں کی ”ناں “ہو گئی۔میں مذاق میں اکثر اس سے کہا کرتا تھا کہ تم تنکہ بابا کے پاس نہ جاتے تو بات بن جاتی ۔خبریں کے پشاور ڈیسک کی رونقیں پورے دفترمیں مشہور تھیں ،ہمارے انچارج مرحوم یوسف امام ہو تے تھے،بہت ملنساراورپروفیش​نل،عبداظہور مشوانی سے ہمیشہ کو ئی اچھی خبر ڈھونڈ کر پشتو کی سرخی لگا یا کرتے تھے اگلے دن سرحدکے کئی شہروں سے پشتو سرخی پرتحسین کے فون موصول ہوتے تو یوسف امام کہتے تھے خان صاحب کی ایک اور سرخی ہیٹ ہو گئی ہے،کوئی بھی نئی چیز پہن کر آفس آتے توباری باری اہل ڈیسک کی رائے لیا کرتے تھے ،ایک دن کالا سوٹ پہن کر آئے توایک ایک کرکے سب کی رائے لی اور خوب داد سمیٹی جب مشوانی سے سوٹ کے بارے میں پوچھا گیا تواس نے برجستہ جواب دیا ،سوٹ صرف اچھا نہیں دو خوبیاں ہیں ،ایک خوبصورت اور دوسرا آپ کے اپنے رنگ سے میچنگ ہے،یوسف صاحب ناراض ہوگئے جنھیں منانے میں کئی دن لگے ،دوچار دن بعد جب میں نے دونوں کو اکٹھے چائے پیتے دیکھا تو عبداظہور مشوانی سے پوچھا کس نے راضی نامہ کرایا ہے؟موصوف نے ہماری بات تو نہیں مانی ،کہا ان کی ایک ضرورت نے راضی کرادیا ،کام کے لئے میں میر ے پا س سرکاری دفتر میں آئے تھے، بس راضی نامہ ہو گیا ۔یوسف امام تین سال قبل جب ہمدرد اخبار کے ایڈیٹر تھے رات کو آفس سے گھر جاتے ہوئے کار الٹنے سے جاں بحق ہوگئے تھے ،میں عبد اظہور ، شفقت حسین اور احمد عمران باجوہ ان کے جنازے میں شرکت کیلئے سرگودھا گئے تھے ، نو سال پہلے مرحوم عبداظہور سمیت کئی صحافی دوستوں کے ساتھ جب مانسہرہ میں میرے گاوں گئے تھے تو تب سے اسرار کیا کرتے تھے کہ آپ لوگ اکٹھے ہو کر کھبی میرے گاوں سرگودھا آو۔ان خواہش توپوری ہو گئی مگر افسوس وہ حیات نہیں تھے،اسلام آباد میں جب مرحوم عدنان شاہد ایڈیٹرتھے توعبداظہور کو خبریں کے نمائندے کی شکایت پرالزام لگا کر نوکری سے نکال دیا گیا تھا،عبداظہور نے پھڈا ڈال دیا،بات ضیاء شاہد تک پہنچی توانکوائری ہو ئی اورعبداظہورکو بے گناہ قرار دے دیا گیا۔ضیاء صاحب نے کہا کل سے نوکری پر آجاو !عبد اظہورنے کہانوکری سے ضروری ہے ادارہ پہلے وہ الزام واپس لے جومجھ پر لگا یا گیا ہے ،اس بات پرعدنان شاہد احتجاجاً اٹھ کر باہرچلا گیالیکن ضیاء صاحب کے حکم پرجی ایم نے تحریر اً الزام واپس لے لیا،،عبداظہور نے کھڑے کھڑے استعفیٰ لکھا اوریہ کہہ کرادارہ چھوڑ دیا کہ جس ادارے کے ایڈ یٹر کو مجھ پر اعتبارنہیں رہا میں اس کے ساتھ اب کام نہیں کروں گا۔انھوں نے کچھ دنوں بعد وفاقی دارالحکومت کا کثیرالمالک اخبار مرکز جوائن کرلیا۔عبداظہور نے 1994میں ریڈیو پاکستان کا پشتویونٹ بطورٹرانسلیٹر جوائن کیا تھا،بعد میں پشتوخبریں اورحالات حاضرہ پر تبصرے بھی پڑھتے رہے، موت سے دو ماہ پہلے علالت کے باعث الگ ہوئے ،چھوڑ ا نہیں تھا،نومبر2003سے اگست 2004تک افغانستان اوردیگرملکو ں کیلئے شروع کی گئی ایکسٹرنل سروس سے منسلک رہے،ا نہی دنوں جب جون 2003میں پی ٹی وی نے اسلام آباد سے ریجنل نیوزکا آغاز کیا تو عبد اظہور ٹی وی کے ساتھ بھی ایک سال تک ترجمہ کرتے اور خبریں پڑھتے رہے، اس کے بعد علاقائی خبریں صوبائی دارالحکومتو ں کے ٹی وی چینلز کے حوالے ہو گئیں۔ایک دن انھوں نے مجھ سے مشورہ کیا کہ میں وزارت تعلیم کی دی سہولت سے فائدہ اٹھا کراسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی سے ایل ایل بی کرنا چاہتا ہوں کیا کہتے ہو ؟میں نے کہا میری سنتے ہوتو چھوڑو کیا مغز کھپاو گئے ،ایم اے آپ نے کیا ہوا ہے نوکری کررہے ہو پیسہ اوروقت کیوں ضاع کرناچاہتے ہو؟مگر وہ شاہد فیصلہ کر چکا تھا ،داخلہ ہی نہیں لیا کمال ہمت کی ،تین سال تک دو دو نوکریوں کے ساتھ ساتھ ایل ایل بی بھی مکمل کرلیا، عبداظہو ر مشین کی طرح کام کرتے تھے۔ شاہد زندگی میں اپنے حصے کے کام جلدی جلدی نمٹا گئے،شروع میں وہ دونوکریاں کرتے تھے ،بعد میں ان دو کے ساتھ اوپن یونیورسٹی کی ٹیوٹرشپ بھی لے لی ۔پرنٹ میڈ یا سے دوری کے بعد الیکٹرانک میڈ یا سے آخری دم تک وابستہ رہے۔عبداظہور مشوانی 1990میں وزارت تعلیم میں ایک ایل ڈی سی بھرتی ہوکرآئے تھے ، یوڈی سی پھر اسسٹنٹ بنے ،یہاں مقابلے کا امتحان دے کر پورے پاکستان میں پہلی پوزیشن لے کر سکیشن آفیسر بن گئے، بحثیت ایس اوپہلی پوسٹنگ اسٹیبلشمنٹ ڈوثرن میں ہوئی،یہاں سے ہی ان کے بیوروکریسی کے ساتھ تعلقات قائم ہوئے جووقت کے ساتھ بڑھتے رہے ،اسٹیبلشمنٹ سے نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ میں چلے گئے ،وہاں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد ان کی پوسٹنگ ایرا میں ہوگئی،اس کے بعد فارن آفس میں ڈپٹی ڈائریکٹر پوسٹنگ ہوئی،وہ جہاں جہاں گئے ہمارے رابطے استواررہے۔دفترخ​ارجہ کی نوکری میں انھوں نے بلجییم ،سویئزلینڈ ،ملائشیاء ،برطانیہ ،یواے ای او ر ایران کے دورے کئے ،بعض دورے وزرائے اعظم شوکت عزیز اور یوسف رضاگیلانی کے ساتھ کئے ۔برطانیہ کے دورے میں ان کی ہمارے صحافی دوستوں خورشید عباسی اورحنیف صابر سے ملاقاتیں ہوئیں جن کی تصاویر انھوں نے مجھے ای میل کی تھیں،میرے الیکٹرانک میڈ یا میں آنے پر وہ بہت مسرور ریتے تھے ،کئی بار مجھ سے کہا میں تمارے لئے کچھ نہیں کرسکا لیکن خدا گواہ ہے میری ہمیشہ خواہش رہی کہ تمیں کسی اچھے ادارے میں کام کا موقع ملے۔ہم نے مانسہرہ ،سری کوٹ ،اسلام آباد ،راولپنڈی سمیت کئی جگہوں پراکٹھے سفر کئے،فیملیوں کے ساتھ ملتے رہے ،دنیا کے ہر موضوع پر گفتگوکی ،مگر کھبی سوچا بھی نہ تھا کہ اتنا جلدی بچھڑ جاہیں گے، اگست 2008 کا مہینہ حقیقی معنوں میں قہربن کرآیا،شروع میں انھیں محض گلے کی کوئی تکلیف تھی ،جسے انھوں نے شاہد لائٹ لیا،تھوڑا سا افاقہ ہوا توجولائی میں میرے منع کرنے کے باوجود ملایشیاء کے دورے پر چلے گئے ، واپس آئے تو مختلف ہسپتالوں کے چکر لگانے کے باوجود،د درد بڑھتا رہا جوں جوں دوا کی ،،اگست میں پمز ہسپتال داخل ہوئے ،مجھے کافی دنوں بعد خبرہوئی،میں عیادت کیلئے پہنچا تومیں نے مشورہ دیا حوصلہ نہ ہارنا آپ مکمل ٹھیک ہو جاو گئے ،،دو دن میں مسلسل پمز جاتا رہا،چھبیس کی شام کومیں ہسپتال سے واپس گیا تووہ خاصے ہشاش بشاش تھے، ستائیس کی دوپہر دس بجکر سترہ منٹ پران کا ایس ایم ایس ملا لکھا تھا finally they have declared it is blood cancerپیغام پڑھ کرمیرے رونگٹھے کھڑے ہوگئے ،میں نے چونک کرآہ بھری تومیری وائف نے سبب پوچھا ،میں نے مسیج پڑھ کر سنا دیا اور فوراً گھر سے ہسپتال کیلئے نکل گیا،میں چالیس منٹ بعد پمزمیں تھاعبداظہورنے ہنستے ہوئے میری طرف دیکھا اورکہا دیکھا ! کیا ہو گیاہے ؟میں نے کہاکچھ نہیں ہوا اللہ تعالیٰ سب ٹھیک کرے گا،میں نے متعلقہ رپورٹ کے بارے میں دریافت کیا تو پتہ چلاابھی باضابطہ رپورٹ نہیں آئی۔میں نے جواز ملتے ہی فوراً کہا تو پھرڈاکٹروں کو کیسے پتہ چل گیا کہ ایسا کو ئی مسلہ ہے،یہ ان کا اندازہ ہے !اس نے میرے موقف کی تاہید کی۔
میر ی شدید خو اہش تھی کہ عبدالظہور مشوانی کا علاج شوکت خانم ہسپتال میں ہو ، اس کا میں نے اس سے اظہار کیا لیکن ان کے رشتہ دار اوردوست صوبیدار صاحب کا خیال تھا کہ سی ایم ایچ میں بلڈ کینسر کا اچھا علاج ہوتاہے ، بدقسمتی سے نئی نوکری کے باعث مجھے اس کے ساتھ جانے کا وقت نہیں ملا،شاہد تمام عمر مجھے یہ احساس رلاتا رہے گا،عبدالظہور مشوانی ایک مہینے سے بھی کم وقت سی ایم ایچ میں زیر علاج رہے ، اس دوران ان کے حوصلے بڑھانے کیلئے میں نے بہت کوشش کی لیکن موت کا وقت شاہد کوئی نہیں ٹال سکتا۔ ہمارے ایک مشترکہ دوست اعجاز حسین مشہدی جو خود ایک سال سے کینسر میں مبتلا تھے اور ان دنوں کچھ بہتر تھے میں نے ان کو فون کرکے ظہور کے بارے میں بتایااور ان سے گزارش کی کہ وہ عبدالظہور کو فون کرکے بتاہیں کہ کینسر قابل علاج ہے ، مشہدی صاحب خودحوصلہ ہارے بیٹھے تھے کہنے لگے یہ موت ہے ۔ مگرمیر ے اصرار پر انھوں نے فون کرکے عیادت کی اوران کی ڈ ھارس بندھائی، اگلے دن میں سی ایم ایچ پہنچا تو ظہور نے بتایا تمارے یار کافون آیا تھا۔ میں نے پوچھا کس کا کہنے لگا ،مشہدی کا ۔ کیا کہہ رہاتھا میں نے تجسس کی ایکٹنگ کی، بولا کسی سے میر ی بیماری کا سنا تو مجھے بتانے کیلئے فون کیا تھا کہ کینسر قابل علاج ہے۔ میں نے مشہدی کے موقف کی تصدیق کی اور کہا مشہدی صاحب ساٹھ سال کے ہیں اور ٹھیک ہو گئے ۔ آپ تو جوان ہو !بس دعا کرو جو اللہ کی مرضی اس نے یہ کہ کر کروٹ بدل لی۔اگلے روز جب میں عبدالظہور کے پاس تھا تو اس کے بلغم کے ساتھ جمع ہوا خون آیا میں ٹرے لئے اس کے سامنے کھڑا تھا ۔ اس نے مسکراتے ہوئے میر ی طرف دیکھا اور نہیف سی آواز سے کہا دیکھو !کیاڈرامے ہو رہے ہیں، کوئی نہیں یہ سب ادویات کی وجہ سے ہے خراب خون جل کر باہر آرہا ہے ۔ یہ کہ کر میں نے واش روم کا دروازہ کھولا اور اندر چلا گیا ۔ بلکہ یوں ہے کہ ! رو پڑا میں خوداسے حوصلہ دیتے ہوئے۔۔لیکن سب سے اذیت ناک دن وہ تھا جب ہسپتال والوں نے اس کے بچوں سے ان کے آخری ملاقات کیلئے کہا ۔سمیع ، عائشہ ، فاطمہ عبدالظہور سے ملنے آئے تھے لیکن ان کا باپ اپنے چہیتے اور لاڈلے بچوں سے کوئی بات نہ کرپایا، مجھ سے یہ منظر نہ دیکھا گیا میں باہرکاونٹرپر آکر رونے لگ گیا۔ نرس نے کچھ دیر بعد میر ا اس سے رشتہ پوچھا ۔میں نے دوست کہا تو اس نے مجھے ڈانٹنا شروع کردیا ۔ اس کے بھائی نہیں رو رہے ،وائف رورہی ہیں ۔ آپ انھیں حوصلہ دینے کی بجائے خودرو رہے ہو ! اسے کب خبر تھی کہ میں نے شاہد اس کے بھائیوں سے زیادہ عرصہ اس کے ساتھ گزارا تھا۔ہم اپنے گھروں تک کی باتیں شیئر کرتے تھے۔ ہماری سترہ سال کی رفاقت ختم ہونے جارہی تھی۔ ۔لیکن سٹاف کو میر ی موجودگی پراعتراض تھا اس لئے مجھے وارڈ سے باہر نکال دیا۔۔پچیس ستمبر 2008 ان کی زندگی کا آخری دن تھا۔اس دن میں اور شفقت حسین عبدالظہور سے باری باری ملے ،خدا نے اس شخص کو بلا کی ہمت عطا کی تھی ۔اس نے انتہائی خراب صحت اورتقریباً بہوشی کی حالت میں مجھے دیکھ کر سرسے میرے کمرے میں داخل ہونے پر اشارہ کیا۔اس دن چونکہ ان کے سارے رشتہ دار ہسپتال آ چکے تھے اس لیے میں اور شفقت حسین باہر آ کر بیٹھ گئے۔ اندر جانے کا وقت نہ ملنے کے باعث شفقت نے کہا میں قریب ہی کزن کے گھرجارہا ہوں روزہ افطار کرکے آجاوں گا۔ میں بھی افطاری کے لئے گھر آگیا ۔افطاری جاری تھی کہ ظہور کے گھرسے کسی نے فون پر عبدالظہور مشوانی کی موت کی اطلاع کی، تھوڑی دیر بعد صوبیدار صاحب نے بھی یہی خبر دی ساتھ یہ بھی بتایا کہ ہم اسلام آباد جارہے ہیں۔ میرے دوست میرے بھائی عبدالظہور کی میت رات اس کے گھرکے باہر صرف آدھے گھنٹے کیلئے رکھی گئی پھر ہری پور روانہ کردی گئی۔ اگلے دن ان کے آبائی گاوں کنڈونہ (کھروچ) میں انھیں سپرد خا ک کردیا گیا۔اس سانحہ کو میں مدتو ں فراموش نہیں کرسکوں گا۔ اسی شام مجھے بادل ناخواستہ فیملی کے ساتھ واپسی کرنا پڑی۔ اگلے دن میں آفس میں تھا دن دوبجے مجھے مانسہرہ سے ایک صحافی دوست طاہر شہزاد تنولی نے فون پر اعجاز حسین مشہدی کی موت کی خبر دی۔جنازہ کاوقت پوچھاتو پتہ چلا ایک گھنٹے بعد ہو گا۔گویا میں جنازہ میں بھی نہیں پہنچ سکا۔ پانچ دن پہلے ہی اعجاز حسین مشہدی نے کہا تھا کینسر موت ہے اور میں نے کہا ہمت نہ ہاریں آپ ٹھیک ہو گئے ہیں۔لیکن مشہدی اپنی صحت کے بارے میں مجھ سے بہتر جانتے تھے۔عبدالظہور مشوانی کو ہم سے بچھڑے دو سال ہونے کو ہیں مگر آج بھی یقین نہیں آتا وہ ہم میں نہیں رہا۔ اسلام آباد میں تمام ادارے ، میڈیا اور لوگ اسی طرح موجود ہیں مگرجو وفاقی دارالحکومت کی کبھی جان اور پہچان ہوا کرتا تھا وہ اب شخص آج اس شہر میں نہیں رہے۔آہ
شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی



Comments are closed.