جو تا کلب

 

اب سیاستدان خود تسلیم کررہے ہیں کہ لفظوں کی سیاست اب جوتا مارنے کے دور میں داخل ہوگئی ہے لیکن ان قابل مذمت واقعات کی روک تھام اور معاملات کو سلجھانے کی بجائے مستقبل میں اس طرح کے مزید واقعات ہونے کی پیشنگوائی بھی سیاستدان ہی کررہے ہیں۔

نواز لیگی لیڈر راناثنااللہ نے حامد میر کے پروگرام میں دعوی کیاہے کہ اب دیگر جماعتوں کے قائدین پر بھی جوتوں کے حملہ ہونگے۔اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ جوتاایک ایسا ہتھیار ہے جو الحمد اللہ سارے پاکستانیوں کے پاس وافر مقدار میں موجود ہے اور اس کیلئے کسی پرمٹ لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔وہ تمام خواتین وحضرات جو جوتامارنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ،وہ جوتا کا استعمال کہیں بھی بڑی سیاسی شخضیت کیخلاف کرکے فورا اپنی درگت بنوانے کا مفت انتظام کرنے کے علاوہ پولیس کے مہمان خاص کا درجہ بھی حاصل کرسکتے ہیں ۔علاوہ ازیں پھر چند دنوں میں عدالتوں سے ضمانت بھی مل سکتی ہے کیونکہ ہمارے قانون میں جوتا مارنے کی کوئی بڑی سزا نہیں ہے ۔

لیگی لیڈر نوازشریف پر جامعہ نعیمہ میں جوتا مارنے کے بعد دیگر جماعتوں کے سربراہان خاص طورپر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے تو جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کے حامیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر کوئی ان کو جوتا مارنا چاہتاہے تو وہ حاضر ہیں لیکن یادرہے کہ وہ کیچ بھی اچھا پکڑتے ہیں اور ساتھ تھرو بیک پر بھی پوری ان کو پوری مہارت حاصل ہے ۔یادرہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی اس آفر سے قبل لیگی رکن کی جانب سے ان کو جوتا مارنے کی کوشش ہوچکی ہے ،اس حملہ میں وہ خود تو محفوظ رہے ہیں لیکن علیم خان اس کا شکارہوگئے تھے۔دوسری طرف ایک اور جوتا واردات کے بارے میں خطرناک پیشنگوئی وزیرقانون پنجاب راناثنااللہ نے یہ کی ہے کہ ان کو راولپنڈی میں موجودگی کے دوران پتہ چلاہے کہ لیگی کارکن عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کو بڑی تعداد میں جوتے مارنے کیلئے بے چین ہیں ۔

ان کا کہناتھاکہ انہوں نے اپنے طورپر کارکنوں کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بضد ہیں کہ شیخ رشید احمد کو جوتے مار کر جوتا کلب کا سنیئر لیڈر بنائینگے ۔ادھر وزیرقانون پنجاب راناثنااللہ کے باس وزیراعلی پنجاب شہبازشریف بھی جوتامارنے کے حق میں نہیں ہیں ،سمجھداروں کا خیال ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی نوازشریف پر جوتاحملہ کے بعد اس کاروائی کے خلاف ہوگئے ہیں اور خود بھی اس کاروائی سے بچنا چاہتے ہیں۔

ادھرجوتا واقعہ کے فورا بعد ہی سینٹ کے الیکشن میں اپ سیٹ کے بعد لیگی قائد نوازشریف نے مسلم لیگ کے جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے مرکزی لیڈر آصف علی زرداری اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیاہے ۔ان کا کہناتھا کہ تم جھوٹے ہو،منافق ہو،تم جیت کر بھی ہارگئے،ہم ہارکربھی جیت گئے ۔الیکشن کو بھی ریفرنڈم بنائینگے ۔نوازشریف مخالفین کے بارے میں کہاکہ وہ چابی والے کھلونے ہیں ۔تم اکٹھے ایک جگہ پر سجدہ ریز ہوگئے ہیں ۔کس کے آگے جھکے ہو ؟

اس کی خدمات اور قدکاٹھ کیاہے ؟ قوم تمہاری اس حرکت کو بری نگاہ سے دیکھتی ہے ۔کیا ایسے لیڈر ہوتے ہیں ؟ ووٹ کو عزت دو، ہمار منشور ہوگا،مشن چن لیاہے ،اس کی تکمیل تک پیچھے نہیں ہٹوں گا ،زندگی کی پرواہ نہیں ۔ دوسری طرف نوازشریف کے اتحادی محمود خان اچکزائی کا قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران سینٹ الیکشن کے بارے میں کہناتھا کہ آئین سے کھیل کھیلا جارہاہے ،ضمیر بیچنے والا محب وطن اور خریدنے والا بھی محب وطن جبکہ ضمیر نہ بیچنے والا ملک دشمن بنادیاگیا۔

ہمیں مجبور کیجارہاہے کہ گلی کوچوں کا رخ کرو ۔سینٹ انتخابات میں پاکستان کی بربادی کی بنیاد ڈال دی گئی ۔یہ انتخابات دھبہ ہیں ۔اچکزائی نے کہا جب نوازشریف کو نکالاگیاتھاتو انہوں نے کہاتھاجمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان لڑائی شروع ہوگئی ہے ۔پہلی جنگ ہم سینٹ الیکشن میں ہم ہار گئے ہیں۔اس کی وجہ زر اور زور ہے ۔

ابھی محمود خان اچکزائی اپنی سیٹ پر بیٹھے ہی تھے کہ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شہر یار آفریدی کا کہناتھا اچکزائی صاحب اسوقت کہاں سوئے ہوئے تھے جب مریم نوازشریف فاٹاکے ارکان اسمبلی کو خریدنے کیلئے فون کیاتھا۔ان کا کہناتھاکہ بلوچستان کے عوام کی تذلیل یوں کی گئی ہے کہ اپنے رشتہ داروں کو نوازا گیاہے ۔لیگی رکن کیپٹن(ر) صفدر بھی سینٹ الیکشن میں سازش ڈھونڈ رہے تھے لیکن سازشی عناصر کا نام لینے کی جرات ان کو بھی نہیں ہورہی تھی ۔دوسری طرف پیپلزپارٹی جوکہ 2013 ء کے جنرل الیکشن کے بعد مسلسل نواز حکومت کی حامی تھی اور اس کے سارے عوام مخالف اقدامات کی جمہوریت کے نام پر حمایت کرتی رہی ہے ۔

نوازشریف کی سینٹ الیکشن کے بعد اسلام آباد میں کی گئی تقریر کے بعد سیخ پا ہوگئی ہے ۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ صاحب تک گرم ہوگئے ہیں ،ان کا کہناتھا کہ ہارس ٹریڈنگ کا طعنہ دینے والے میاں صاحب چھانگا مانگا یادکریں ۔ہم پر جھکنے کا الزام لگانے والے ممیو گیٹ یاد کریں ،یہ کونسی چابی تھی جس نے نوازشریف کو کالا کوٹ پہنایاتھا۔وہ کونسی سے چابی تھی جس نے محترمہ بے نظیر بھٹو کیخلاف مقدمات بنوائے تھے ۔وہ کونسی چابی تھی جس کے بعد میاں صاحب زرداری صاحب سے طے شدہ ملاقات کے باوجود ملنے سے انکاری ہوگئے تھے۔

میاں صاحب ساری زندگی چابیوں پر چلتے رہے ہیں۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کی قیادت جوایکدوسرے کیساتھ کررہی ہے ،اس کے بعد پورے اعتماد کیساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے ماضی سے سبق حاصل نہیں کیاہے اور نہ ہی کرناچاہتے ہیں ۔سمجھدار وں کا خیال ہے کہ قوم تو قع کررہی تھی کہ جمہوری سف کو دس سال مکمل ہونے پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کی لیڈر شپ حقیقی معنوں میں بڑی ہوجائیگی اور ایسا تماشہ نہیں لگائے گی جوکہ جمہوریت کا منہ کالا کرنے کا سبب بنے گا ۔

بہرحال جوتا بازی کے اس تلخ ماحول میں اپنی بات اس شعر پر ختم کررہاہوں،امید ہے جوتاکلب کے سیاستدانوں کو پوری بات کی سمجھ آجائیگی ۔
وقت کرتاہے پرورش برسوں ۔۔۔حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ۔

Comments are closed.