صرف ایک شخص نے


شمشاد مانگٹ

پاکستان کی سیاست اور میڈیا پر اس وقت میاں نواز شریف کا راج ہے۔ میاں نواز شریف سے جتنا بھی اختلاف کیا جائے لیکن یہ بات ان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ایک خوش قسمت ترین انسان ہیں۔ ان کی سیاست کا ستارہ ڈوب کر نہ صرف ابھرتا ہے بلکہ ابھر کر سورج کی طرح چمکتا ہے۔ اسی طرح ان کی صحت کا معاملہ بھی ہے ان کے پلیٹلیٹس کبھی خاتمے کے قریب پہنچتے ہیں اور کبھی زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں۔میاں نواز شریف کے پلیٹلیٹس بھی ان کے کارکنوں کی طرح ہیں جب عدالتوں میں تمام وکیل دلیلوں سمیت ناکام ہو گئے تو میاںصاحب کیلئے پلیٹلیٹس ڈھال بن کر آ گئے اور پورا نظام مجبور اور لاچار ہو گیا۔

میاں نواز شریف جس طرح اس وقت میڈیا کے ہر فورم پر چھائے ہوئے ہیں اسی طرح حکومت اور عدالتوں کے اعصاب پر بھی مکمل طور پر سوار دکھائی دیتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی زندگی بچانے کے لئے حکومت‘ ڈاکٹرز اور عدالتیں جس طرح متحرک نظر آ رہی ہیںاس سے لگتا ہے کہ یہ پاکستان صرف بنا ہی میاں نواز شریف کے لئے ہے اور میاں نواز شریف کو کچھ ہو گیا تو خدانخواستہ پاکستان داﺅ پر لگ جائے گا۔
پاکستان کا آئین ہر شہری کیلئے بہترین طبی سہولتیں‘ انصاف کا بروقت اور سستا ترین نظام یقینی بنانے پر زور دیتا ہے اور ریاست مدینہ کا تصور اس بات پر بھی اصرار کرتا ہے کہ ریاست کے ہر شہری کی زندگی اتنی ہی اہم ہو گی جتنی کہ کسی حکمران یا حزب مخالف کے قائد کی زندگی ضروری سمجھی جائے گی۔ ہماری مختصر زندگی میں پہلی بار گنہگار آنکھیں یہ منظر دیکھ رہی ہیں کہ آئین پاکستان کی بنیادی حقوق سے متعلق شق آخرکار ایک شہری کے لئے حرکت میں آ ہی گئی ہے اور یہ شخص میاں نواز شریف ہے۔

اس وقت عدالتیں میاں نواز شریف کو بروقت اور تیز ترین انصاف کی فراہمی کے لئے بے چین اور بے قرار دکھائی دیتی ہیں۔ دو دن میں دو عدالتوں سے ان کی ضمانت منظور ہونا پاکستان کے عدالتی نظام کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔ ایک طرف عدالتیں مہربان نظر آتی ہیں تو دوسری طرف حکومت بھی میاں نوازشریف کے پلیٹلیٹس کے سامنے بہت کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پلیٹلیٹس کم ہونے سے میاں نواز شریف کی قوت مدافعت کمزور ہوئی اور اسی نسبت سے حکومت کی قوت مدافعت بھی کمزور ہوتی دیکھی گئی۔ عجیب بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف اور حکومت کے پلیٹلیٹس میں بالکل اس طرح مماثلت ہے جیسے دو انسان ایک ہی بلڈ گروپ رکھتے ہوں۔

میاں نواز شریف کی زندگی اس وقت اتنی ضروری سمجھی جا رہی ہے کہ عدالتوں اور حکومت کا ساتھ دینے کے لئے لاہور سے کراچی تک کے ڈاکٹر حضرات حرکت میں ہیں جبکہ انگلینڈ کے ڈاکٹرز سٹینڈ بائی ہیں۔ دوسری طرف ایک غریب کی قسمت ہے جس سے ینگ ڈاکٹرز بھی لاپرواہ ہیں اور بوڑھے ڈاکٹرز تو ویسے ہی اب خود مریض دکھائی دیتے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال ہی ختم نہیں ہو پا رہی ۔

ملک کا پورا نظام اس وقت 69 سالہ میاں نواز شریف کی زندگی بچانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بڑی کامیابی سے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو جیل میں ڈال دیا تھا لیکن بیمار نواز شریف نے حکومت کو بھی بیمار کر دیا ہے اور حد تو یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی بیماری مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کو بھی کھا گئی ہے۔

میاں نواز شریف کو ملنے والی طبی‘ عدالتی اور حکومتی سہولتوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حضرت بابا بُلھے شاہ نے اپنے کلام میں ایسے ہی پاکستان کی نوید سنائی تھی جس میں انہوں نے کہا کہ تھا۔
چل اوئے بُلھیا اوتھے چلئے
جتھے سارے انہے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے
تے نہ کوئی سانوں منے
سانحہ ساہیوال میں سرکاری غنڈوں نے پوری فیملی پر گولیاں برسائیں لیکن ”انہے“ قاتلوں کو دیکھ ہی نہیں سکے اور وہ باعزت بری ہو گئے۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں سرکاری بندوقوں سے چودہ معصوم لوگ زندگی ہارگئے لیکن ”انہے“ اس بار بھی قاتلوں کو شناخت کرنے میں ناکام رہے۔ تھانوں کے اندر بھی اور باہر بھی باوردی لوگ شہریوں کو مارتے رہے لیکن ”انہے“ لوگ قاتل تلاش نہیں کر سکے۔

ڈاکٹرز‘ حکومت اور عدالتیں میاں نواز شریف کی غیر ملکی جائیدادوں‘ جے آئی ٹی رپورٹس اور نیب کی تفتیش کے سامنے بالکل اندھے دکھائی دے رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اگر میاں نواز شریف کو کچھ ہوا تو ذمہ دار حکومت ہو گی۔ یہ نہیں بتایا جا رہا ہے کہ اگر میاں نواز شریف صحت یاب ہو گئے تو حکومت کو کون سا گولڈ میڈل دیا جائے گا؟ میاں نواز شریف کی صحت یابی کے لئے دعا کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ ان کے ارد گرد ایک کروڑ سے ز ائد افراد کالے یرقان کے ذریعے موت کا سفر کر رہے ہیں مگر ان کی زندگی بچانے کا نظام انتہائی کمزور اور سست ہے۔

عدالتوں میں مقدمات کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے لیکن انصاف کی فراہمی کی تمام نہریں صرف میاں نواز شریف کے گھر کی طرف جاتی دکھائی دیتی ہیں۔ وفاقی حکومت روز اول سے بیمار معیشت کو صحت مند کرنے کے لئے سر توڑ کوششیں کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ بیمار عدالتی نظام اور بیمار صحت کی فراہمی کا نظام بہتر کرنے پر بھی غور کر رہی تھی لیکن میاں نواز شریف کی بیماری نے حکومت کو سارے کام چھوڑ کر پہلے اپنی ”تندرستی“ کی طرف متوجہ کر لیا ہے۔

پاکستان کے قیام کے بعد ہم ان خوش نصیب لوگوں میں اب شامل ہو گئے ہیں جنہوں نے 22 کروڑ کے اس ملک میں صرف ایک شخص کو صحت اور انصاف کی بروقت فراہمی کا عمل اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ اب کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں کسی کو بھی انصاف اور صحت کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ صرف ایک بیمار شخص نے پورے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ صرف ایک شخص نے۔

Comments are closed.