امریکہ سعودی خرچےپر ایران کو سبق سکھانے کےلیے بےتاب، چین اور روس بھی کود پرے

اسلام آباد (زمینی حقائق :خصوصی رپورٹ) گزشتہ دنوں سعودی عرب کی دو بڑی آئل فیلڈز پر ڈرون حملوں کے بعد مشرق وسطیٰ میں سخت کشیدگی ہے، امریکہ، چین اور روس بھی اس ایشو پر خاموش نہیں رہ سکے.

امریکہ سعودی عرب کی مدد کے بہانے ایران پر حملے کی تیاری میں کیوں کہ ایران سے براہ راست الجھنے کی بجائے امریکہ کو سعودی خرچے پر ایران کو سبق سکھانے کا موقع ملا ہے.

سعودی عرب کی طرف سے بھی ایران کو ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کرنے کے باوجود یہ موقف سامنے آیا ہے کہ سعودی عرب خود جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اس سے واضح یہ پیغام ملا ہے کہ وہ ایران کے خلاف کارروائی کے لئے امریکہ مدد نہیں چاہتا.

ان دو بڑی آئل فیلڈز میں آرامکو کمپنی کے بڑے آئل پروسیسنگ پلانٹ عبقیق اور مغربی آئل فیلڈ خریص شامل ہیں۔

حملوں کے بعد جہاں مشرق وسطیٰ میں سخت کشیدگی پائی جاتی ہے ساتھ ساتھ تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے جبکہ امریکا نے براہ راست ان حملوں کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا ہے تاہم ایران نے اِن الزامات کی تردید کی ہے۔

اس سب کے بعد یمن کے معاملے پر سعودی عرب کی سربراہی میں بنائے گئے عرب عسکری اتحاد نے تیل کی تنصیبات پر حملے میں ایرانی ہتھیار کے استعمال کا الزام لگایا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایران کو ذمہ دار ٹھہرایا جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سے بھی دو قدم آگے نکلے اور کہا ہم ایران کو حملوں کا جواب دینے کے لئے ہم تیار اور نشانہ بند ہیں، سعودی عرب کے جواب کا انتظار ہے.

سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملے کے نتیجے میں امریکا اور ایران کشیدگی سے متعلق روس کا ردعمل بھی سامنے آگیا۔

روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زخاروا نے کہا کہ مشرق وسطیٰ اور خطے سے باہر کے ممالک سعودی آئل تنصیبات حملوں پر جلد بازی میں نتیجہ نہ نکالیں۔

انہوں نے کہا کہ واشنگٹن میں زیرِ بحث سخت جوابی رد عمل کی تجاویز ناقابل قبول ہیں لہٰذا خطے اور باہر کے ملک ایسے اقدامات سے باز رہیں جن سے خطے کے استحکام کو نقصان پہنچے۔

روسی وزرات خارجہ کا کہنا ہے کہ ایران سے متعلق امریکی پالیسی کے تناظر میں غیرتعمیری اقدامات نقصان دہ ہوں گے۔

ادھر چین نے بھی امریکہ کو جلد بازی نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے
امریکہ نے سیٹلائیٹ نقشوں کے زریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حملوں میں ایران ہی ملوث ہے جبکہ ایران ان الزامات کی تردید کر چکا ہے.

Comments are closed.