احمد ظ۔: لاہور میں پرانے ہڑپے کا آخری باشندہ
سن 80ء کے اوائل کی بات ہے جب پیرس کے راستے سٹاک ہوم جانے والی ایک عام پرواز میں مسافر دھوئیں میں کھانستے ہوئے، پرے نشست پر جکڑ کے باندھے ہوئے ایک خوفناک آدمی کو سہمی ہوئی نظروں سے گھور رہے تھے۔ اس نے جہاز میں بیٹھے بیٹھے اپنا گہرا سبز پاسپورٹ نکالا تھا اور اسے آگ کا شعلہ دکھا دیا، اس سے پہلے کہ آگ کی لپٹیں جلتے ہوئے کتابچے سے پورے جہاز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتیں، حفاظتی عملے نے اسے دھر لیا اور اس کی رسیاں پیرس پہنچ کر کھولی گئیں۔ احمد ظ تب تک پاکستانیوں کے لیے ایک غیر معروف مصور تھا، تیسری فوجی آمریت نے لاہور میں اس کی تصویری نمائش پر پابندی لگا دی تھی اور ریاست کے معتوب ہونے کے بعد اسے سویڈن میں سیاسی پناہ مل گئی۔ سٹاک ہوم میں اسے ایک مہمان خانے میں ٹھہرایا گیا۔ سر شام ہوٹل کا مالک اپنے مہمان کو ملنے اس کے کمرے میں پہنچا تو اپنا سر پیٹ لیا۔ کمرے کی دیواریں، چھت، فرنیچر اور فرش، ہر چیز کا رنگ بدل چکا تھا۔ ظ کا فنی وفور چوکھٹے کینوس کا محتاج نہیں تھا، اس سے کسی بھی جگہ، کچھ بھی پینٹ کرنے کی توقع کی جا سکتی تھی۔ اس کے رنگ گاڑھے گوندھے ہوئے اور چندھیا دینے والے تھے، رنگوں کے بظاہر کند لیکن تیز رو وار کے ساتھ وہ کینوس پر گمٹیاں، امبیاں، برہنہ سانولی مٹیاریں اور مور پنکھ کی سی بِندیاں پینٹ کیا کرتا تھا۔ جو کوئی ظ پر نظر رکھتا تھا، ظ اسے چونکا دیتا۔ وہ اپنی سرکاری شناخت سے عاجز تھا اور خود کو پرانے ہڑپہ کا باسی بتاتا تھا۔
ظ کا اصل نام احمد ظہیر تھا۔ وہ جالندھر میں پیدا ہوا، قیام پاکستان کے وقت وہ چھ ماہ کا تھا اور شیر خوارگی میں اپنے ماں باپ اور نانی کے ساتھ لاہور کے مہاجر کیمپ میں پہنچا۔ باپ برٹش انڈین آرمی کے طبی شعبے میں ملازم تھا۔ ماں کروشیے اور نیلے پیلے گوٹوں کے ساتھ ٹوپیاں، جرسیاں بُننے اور رومالوں کی گوٹا کناری کرنے والی گرہستن تھی، اور نانی پنجاب کی لوریاں، پہیلیاں اور پھکڑ سِکھانے والی ایک زندہ دل بڑھیا تھی۔ ظ کے بچپن کے متعلق اس کے زیادہ تر اقارب کو کچھ معلوم نہیں ہے۔ شاید اس کی ماں کے مشغلے نے شیرخوارگی میں اسے رنگین دھاریوں کی بُن و بست کے ساتھ پہلا تعارف کروایا ہو، اور نانی کی حکایتوں، بولیوں اور ‘بھلے وقتوں’ کے بزرگانہ تذکروں نے اس کے اندر پہلی بار اپنی تہذیب کے خوابناک ماضی کا جادو جگایا ہو۔ وہ اپنی ماں کی نسبت اپنی نانی کے زیادہ قریب تھا اور اپنے قریبی دوستوں میں اکثر اپنی نانی کا تذکرہ ایک خاص جذباتیت سے کرتا تھا۔
اسکول پڑھنے کے سال اس نے کراچی میں گزارے اور پھر نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں آ کر باقاعدہ سے آرٹ کی تعلیم لینا شروع کی۔ ظ شروع میں حقیقت نگار تھا، ابتدا میں اس کی حقیقت معروضی اور تناظری رہی، بہت جلد اس نے خارجی حقیقت کو اپنی موضوعیت کے آگے زیر کر لیا اور اپنی حقیقت کو پیش کرنے کے لیے اپنا ایک جداگانہ اسلوب وضع کر لیا۔ وہ ابھی بارہویں جماعت میں تھا کہ اس کی مصوری کے کام فروخت ہونے لگے۔ ان دنوں معروف مصور شاکر علی کالج کے پرنسپل تھے اور ظ ان کا پسندیدہ شاگرد تھا۔ وہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکا، کالج سے چھٹکارا پاتے ہی اس نے اپنی سبھی توانائیاں مصوری کرنے میں جھونک دیں۔ سن 68ء میں اس نے کافرستان کے پہاڑوں کا رخ کیا۔ چند کینوس اور رنگوں کی ٹیوبیں ایک خچر پر لادے، وہ مخروطی پہاڑوں، درختوں کے دوشاخوں اور کافرستانی حسیناؤں کے رنگلے آنچلوں سے اپنے نقوش و نگار کا اکتساب کرتا رہا، اور وہاں سے کئی ایک منفرد تصویروں اور وادئ کیلاش کے ساتھ گہری وابستگی کا جذبہ لے کر لوٹا۔ انہی زمانوں میں وہ مغربی دنیا سے آنے والے ہپی تیاگیوں کے قافلوں سے ملا اور ان کے ساتھ ہو لیا۔ ہپی ٹریل کے ساتھ پاکستان کے دشت و دمن چھانے، پھر یورپی ممالک کا سفر کیا۔ یورپ میں اس کے فن کو بے پناہ ستائش ملی اور اٹلی، جرمنی، سویڈن اور دوسرے ملکوں میں اس کی مصوری کی کامیاب نمائشیں ہوئیں۔ پاکستان لوٹا تو سمن آباد، لاہور میں اپنے اسٹوڈیو میں برابر تصویریں بناتا رہا۔ 89ء میں پنجابی اخبار سجن جاری ہوا۔ احمد ظ رومال میں روٹی باندھے اخبار کے دفتر آتا، بچوں کی پنجابی کہانیوں کے لیے خاکے بناتا، ایک اپنی سی ژولیدہ زبان میں پراسرار کالم اور نظمیں لکھتا اور پنجاب کے ساتھ ہوئی تاریخی ستم ظریفیوں پر آوازے کستا۔ وہ تمام عمر شراب، گانجے اور ہلوسی گولیوں سے اپنی مادر زاد بے خودی کی پردہ داری کرتا رہا۔ آخر کار 10 جولائی 2014ء کو لاہور میں واقع اپنے اسٹوڈیو میں چل بسا۔ اس کے اکثر اقارب کو اس کے موت کی خبر نہیں ملی اور اس کا فنی ترکہ اس کے پرستاروں اور لواحقین کے بیچ میں کہیں پِٹ کر رہ گیا۔
مصوری میں ظ ایک منفرد طرّاحی کا موجد اور خود ہی اس کا خاتم تھا۔ اس نے اپنے رنگوں کے امتزاج پیوند لگی فقیری گودڑیوں، سجے سنورے ٹرکوں کے چھجوں اور رنگلے پتوں والی چنگیروں سے کسب کیے ہیں۔ اس کے رنگوں کے انتخاب اور صوری علامات کا ذائقہ خالصتاً دیسی ہے۔ مغربی مصوری میں وہ پکاسو اور مودیلیانی کے فن سے متاثر رہا، لیکن اس کی تجریدیت میں سندھو وادی کے گول، چپٹے، لمبوترے ابدانی پیکروں کی جھلک بھی برابر آتی ہے۔ وادئ سندھ کے آثار سے "رقصاں لڑکیاں” اور "پیشوا راجا” رنگ اور بھیس بدل بدل کر ظ کے کینوس پر نمودار ہوتے رہے ہیں۔ مصورانہ روایتوں میں ‘مقامی’ اور ‘غیر مقامی’ کا شعور ظ کے ہاں انتہائی دوٹوک ہے۔ لاہور کو اپنے فنی کیریئر کا مرکز بنانے کے باوجود وہ یہاں کی کلاسیکی روایت، یا مصوری کے لاہوری دبستان سے مکمل لاتعلق رہا ہے۔ اسے نادر الزماں، فرخ بیگ قلماق، عمدۃ المصورین اور رحیم مشکیں قلم کی کِرم خوردہ درباری وصلیوں سے اپنے دراوڑی آباء کے خون ناحق کی سڑاند آتی ہے، وہ استاد مولا بخش اور چغتائی کے کاموں کو ہارے ہوئے مغل شاہزادوں کے آرائشی چونچلے سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک ہندوستان میں عرب لشکریوں کی پہلی یلغار کے دن سے، یہاں کا کوئی رنگ، خالصتاً دیسی نہیں رہا۔ اسے پراچین سندھو وادی کے اجڑنے کے بعد کے کسی مظہر سے اپنائیت کا احساس پیدا نہیں ہو سکا۔
عورت، اپنے تمام تر ثقافتی اور جنسیاتی ظہور کے ساتھ ظ کی مصوری کا مرکزی موضوع رہی ہے۔ اس کی عورت دراوڑی وضع کی سانولی عورت ہے، جوکہظ کے لیے محض صنفی ہمدردی جتانے کا موضوع نہیں ہے۔ اس کے دوستوں کے بقول وہ پھولوں کو اپنے تولیدی کردار کے سبب نباتات کے جنسی اعضاء قرار دیتا تھا۔ اس نے پھولوں اور اپنی مخالف جنس کے اعضا کو ایک سے جمالیاتی ذائقے کے ساتھ دیکھا اور تصویر کیا ہے۔ ذاتی زندگی میں ظ کی تنہا طبع عورت سے دور اور نفور تھی، وہ تعلق کے باب میں عورت کو زندگی کے سیاہ و سفید میں حصہ دار بنانے کی بجائے، گھڑی بھر کی ہم آغوشی خریدنے کا قائل تھا۔ اس نے دو ناکام شادیاں بھی کیں، لیکن زندگی کا زیادہ تر حصہ وہ پیشہ ور عورتوں کے پاس جاتا رہا۔ وہ بازار حسن سے اپنی مصوری کے لیے حافظے میں کبھی نیل کنول کے ناشکفتہ ڈوڈے جیسی رانوں کے زیر و بم چرا لاتا تو کبھی کوئی جوہی جیسی انگلیاں لا کر اپنے کینوس پر سجاتا۔ اس کی مصوری میں کسی جگہ کیوڑے کے پھول جیسے گول بھاری پستان نظر آتے ہیں اور کہیں کھلی پسری رانوں کے بیچ نرگسی پتیوں جیسے اندام۔ اوپر تلے جزویات میں وہ تیکھی املتاسی اور سوسنی کتلیاں چھڑکتا ہے۔ عورت کے اکثر پورٹریٹوں میں رنگوں اور دھاروں کا ایک قابل شناخت قرینہ نظر آتا ہے، جن کے قریب آ کر جھانکنے سے رومالوں اور دوپٹوں پر کاڑھے گئے روایتی بیل بوٹوں کا سا گمان پڑتا ہے۔
کوئی بھی منظر ابھارنے کے لیے اس کے ہاں صوری علامتوں اور تاثرات کا ایک سکہ بند ذخیرہ موجود ہے۔ وہ ایک پیکر تراشتا ہے اور پھر تیز و ترش اور باہم متضاد رنگوں کی بِندیوں، جھریوں اور پٹیوں سے پورے منظر میں ایک واضح تھرتھراہٹ پیدا کرتا ہے۔ تاثرات کے ایک لگے بندھے ذخیرے کو مسلسل برتتے رہنے کی وجہ سے ظ کے بعض ناقدوں کا خیال ہے کہ وہ تمام عمر ایک ہی تصویر بار بار بناتا رہا ہے۔ ظ کے ہاں علامتوں اور اظہاریوں کے سکہ بند اور محدود ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کسی بھی نقش یا ہیولے کو اس کے لاشعور سے کینوس پر لائے جانے تک، اس کی ناقابل سمجھوتہ شخصی عصبیتوں کی چھلنی سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس کی منفرد صناعی اور نئی طرّازی یہ کہنے کو شاید کافی ہو کہ ظ نے تمام عمر جو تصویر بار بار بنائی ہے، اس سے پہلے کوئی نہیں بنا سکا ہے۔
ظ کے حسن اور جنس کے پنجابی مظاہر کی عکاسی کی طرح، پنجابی خطاطی کے کام بھی بیساختہ اور پریشاں ہیں۔ وہ ہاتھ میں کسی بھی رنگ کی ٹیوب پکڑتا اور دائیں سے بائیں لفظوں اور حرفوں کی بھرمار کر دیتا ہے۔ لفظ، اعراب، حروف ایک دوسرے کو پامال کرتے ہوئے پورے کینوس پر معنی کی رنگ دار دھول اڑاتے نظر آتے ہیں۔ جہاں کہیں یہ دھول چھٹتی ہے، ظ کہیں کسی صوفی کی کافی گاتا دکھائی دیتا ہے تو کہیں زمانے بھر کی واہی تباہی بکتا ہوا۔ ظ کے بعض کاموں میں حرفوں کے آگے معنی ڈھونڈنے کا اہتمام صرف انہی شائقین کو کرنا چاہیے جو گالی کھانے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ اس کے معاصر مصوروں کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح سے اپنی زبان کے لیے غیر موزوں، رائج رسم الخط کا ٹھٹھہ اڑاتا ہے۔ یہ ایک بدمست سادھو کی شطحات، اور ایک درد سے چور ہذیانی کی کراہیں ہیں۔ وہ جب اپنے خطے اور لوگوں کی تاریخ پڑھنے لگتا ہے تو آواز بخارات بن کر حرف، علامت اور معنی کے اوپر اڑنے لگتی ہے، وہ اپنے وجدان کی رو میں نوشتار کو روندے چلا جاتا ہے اور لفظ مہمل چیخیں، کراہیں، گالیاں اور پھٹکار بن کر گونجنے لگتے ہیں۔ لفظ و معنی اور آواز کے بیچ کا یہ انفصال اس کی خطاطی کے کاموں سے لے کر، اپنی تاریخ اور ثقافت سے متعلق اس کے کتابی شعور تک پھیلا ہوا ہے۔
عام انسانی حساسیت اور بڑے تہذیبی قضیوں کے بیچ ایک باریک سی لکیر پائی جاتی ہے، یہ لکیر دیوانگی کی لکیر ہے۔ سبھی بڑے چھوٹے فلسفی، شاعر، حملہ آور، سورمے، مصلح، مطرب اور فنکار اس کے آر اور پار پھدکتے رہے ہیں، لیکن بیچ کی یہ لکیر ان کا پکا مسکن ہے۔ پنجاب کی مٹی اور پانی پر کئی ہزاریوں کا تہذیبی بوجھ، یہاں کے عمومی انسانی تجربے پر جس قدر گراں ہے، مجذوبیت کا یہ درمیانی خط بھی یہاں اسی قدر تیکھا اور کشیدہ ہے۔ پنجاب کی خوشنما شناختی علامتوں کے ایک ایک کر کے غائب ہونے، زمین کے بٹوارے، فسادات اور دریاؤں کے سوکھنے کا گریہ کرنے کو ایک عمر چاہیے۔ ظ کی عمر، اسی گریے کا ایک پریشان حال مظہر ہے۔
وہ پنجاب کو اپنی پہلی شناخت قرار دیتا تھا، "پنجاب” کے فارسی الاصل لفظ کو البتہ وہ نہیں مانتا تھا۔ وہ اپنے وطن کا نام "سپتہ سندھو” (سات دریاؤں کا دیس) بتایا کرتا تھا۔ وہ راتوں کو نشے میں چُور ہو کر گلیوں میں نکل آتا اور غریب پٹھان چوکیداروں کی طرف پتھر پھینکنے اور آوازے کسنے لگتا کہ پنجاب کی چوکیداری انہیں کیونکر سونپی گئی ہے۔ وہ اکثر اپنی تصویری نمائشوں میں عام چلن کے برعکس دھوتی اور پگڑی پہن کر چلا جاتا اور وہ اس بات کی پھبتی اڑانے والوں کا گریبان تک پھاڑ سکتا تھا۔ وہ فہم عامہ کے متوسط معیارات کی سر عام دھجیاں بکھیرتا اور ان کا لطف لیتا تھا۔ ڈنمارک میں قیام کے دوران وہ تین دن تک اپنے سفری بستے پر “Pistol inside!” (اندر پستول ہے) لکھ کر گھومتا رہا، یہاں تک کہ پولیس نے اسے پکڑ لیا اور تھانے لے جا کر مکمل تلاشی لی گئی۔ یہ ظ کے مذاق کی ایک ادا تھی جو اسی سے مخصوص ہے۔ لاہور میں قیام کے وقت وہ اکثر اپنی پتلون کے ساتھ ایک کھلونا پستول اڑس کر رکھتا تھا، جسے دیکھنے والے حیرت سے دیکھتے اور سوچتے رہ جاتے تھے۔ وہ ایک کل وقتی اداکار تھا، جس کی فی البدیہہ تماثیل کو کسی اسٹیج اور حاضرین کا احتیاج نہیں تھا۔
وجود اور عدم کے بیچ معلق "شناخت” کی پہیلی اس کی بہت بڑی حساسیت تھی۔ 80ء کی دہائی میں کچھ مصور دوستوں کے ساتھ بیٹھے اسے ہند و پاک کو تقسیم کرنے والی لکیر کا وجود بہت بیچین کرنے لگا۔ تب تک ریڈکلف لائن پر ایسے خاردار جنگلے بہت کم جگہوں پر تھے۔ انہوں نے سوچا کہ رات کا انتظار کیے بغیر لکیر کے اس پار چلے جائیں، آبادی میں پہنچ کر بس پکڑیں اور کچھ دن ہندوستان کی سیر کریں۔ بھارت کی حدود میں کچھ آگے جا کر انہیں سرحدی گشت پر مامور بھارتی اہلکاروں نے دھر لیا۔ پوچھ گچھ پر بتایا گیا کہ وہ مصور ہیں اور وہ برصغیر کو کاٹنے والی لکیر کو نہیں مانتے۔ ایک بھارتی افسر نے تصدیق کی غرض سے انہیں اپنا پورٹریٹ بنانے کا کہا۔ اس ٹولی میں موجود مصور اقبال رشید نے جو کہ حقیقت نگارانہ طرز کا مصور ہے، جھٹ سے افسر کا سولہ آنے مشابہہ پورٹریٹ بنا کر دے دیا، دوسرے مصوروں کے پورٹریٹ کو بھی تسلیم کر لیا گیا۔ بغل میں سارتر کی کتاب “Being and nothingness” دبا کر بیٹھے مصور احمد ظ نے اپنا پورٹریٹ پیش کیا جو کہ نہایت تجریدی تھا۔ افسر نے پورٹریٹ کو دیکھتے ہی کہا کہ باقی سبھی لوگ یقیناً مصور ہیں، لیکن ظ کو مصور نہیں مانا جائے گا۔ آخر میں ان سبھی کو غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کے جرم میں دو ماہ پٹیالہ جیل کی دال کھانا پڑی۔
ویرانوں کی سیر کے دوران وہ آس پاس بکھری لکڑیوں میں ساخت تلاش کرتا تھا، وہ پیڑوں سے جھڑ چکے دو شاخوں اور سہ شاخوں کو چاقو سے تراش کر چھوٹے بڑے چوبی مجسمے بناتا تھا۔ اور اس کے گھر کا باغیچہ ان مجسموں سے ہر وقت سجا رہتا تھا۔
ظ کے کام کرنے کا انداز نہایت والہانہ اور ڈرامائی تھا۔ مصوری میں وہ مُوقلم کا استعمال شاذ ہی کرتا تھا اور سیدھے سبھاؤ کھلی ٹیوب کا دہانہ کینوس پر پھیرتے رہنے سے اس کی تصویر ابھرتی تھی۔ اس کی زندگی کے آخری برس اپنے اسٹوڈیو میں بے تکان پینٹ کرتے رہنے میں گزرے۔ وہ دیوار پر تین یا چار کینوس بیک وقت آویزاں کرتا، اور غازہ بہ غازہ، خط بہ خط سبھی تصویروں پر ایک ساتھ کام جاری رکھتا۔ تصویر بناتے ہوئے اس کی مثال چار نکاحوں والے اس مرد مومن جیسی ہونے لگتی تھی جو سبھی منکوحات سے بہ یک وقت ہم پہلو ہو رہا ہو۔ وہ سبھی تصویروں سے برابر فاصلے پر کھڑے ان کو دیکھتا، پھر اچانک ایک کینوس پر کسی جزویے کی دھاری کو دوآتشہ کرتا، پھر دوسرے کینوس والی حسینہ کی زلف سنوارتا اور پھر تیسری کی سرینوں کی قوس تھپتھپاتا۔ پینٹ کے استعمال میں ظ کسی بخل کا روادار نہیں ہے۔ اس کے بہت سے نقوش میں ایک اوسط کینوس پر پانچ کلو تک پینٹ تھوپا گیا ہے، جس کی وجہ سے یہ نقوش آنکھوں کے ساتھ ساتھ انگلیوں کے پوروں سے دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔
احمد ظ خود اپنے فن پر تبصرہ کرنے کا روادار نہیں تھا، اپنے فن پاروں کو تلف کر دینا اس کی عادت تھی اور وہ اپنے دوستوں سے اپنے بچپن اور لڑکپن کی باتیں بہت کم کیا کرتا تھا۔ اس کے بیوی بچے اس کے ساتھ بہت قلیل وقت کے لیے رہے۔ اس نے اپنی زندگی کو ایک سربستہ بجھارت کی طرح گزارا اور تاریکی و تنہائی میں ہونے والی اس کی موت نے اس بجھارت کو تمام اور ہمیشہ کے لیے مہر بہ لب کر دیا۔ اس کے فن پر نقد و نظر کے لیے اس کے بچ رہے فن پارے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ظ کی موت پنجاب کے شائقین مصوری کے لیے ابھی ایک تازہ سانحہ ہے، جبکہ اس کے فن کو اس کی شخصی موضوعیت کے آئینے میں پرکھنے کے لیے اس کی شخصیت پر سوانحی نوعیت کا کام کیا جانا ابھی باقی ہے۔ اس کے فن پارے ہمیشہ کے لیے دستیاب ہیں، جبکہ سمن آباد میں اس کے اسٹوڈیو، کیلاش کی وادیوں، یورپ کی گیلریوں اور گلیوں، لاہور کے باغیچوں، قحبہ خانوں اور اس کے اقارب کے حافظے میں موجود ظ کے پیروں کے نشان ابھی تازہ ہیں۔ اس کا فنی ترکہ، ان نشانوں کے مٹنے اور ظ کے افسانوی کردار بننے سے پہلے انہیں سمیٹ اور سنبھال لیے جانے کا تقاضا مسلسل کر رہا ہے۔
Comments are closed.