یہ منہ اور مسور کی دال
محبوب الر حمان تنولی
جن کو انقلابی اور جمہوریت کا چمپین سمجھ کر بعض اندھے پیروکار نجات دہندہ قرار دینے پر تلے ہوہے ہیں اور کچھ بےوزن شعراردیف ملا کر ہم قافیہ نثر فیس بک پربکھیر کرناسمجھ مقلدین سے واہ واہ سمیٹ رہے ہیں انھیں ریکارڈ کی درستگی کے لیے تاریخ پڑھنی چاہیے۔
بدلہ کچھ بھی نہیں ہے اگر بقول شخصےآج کچھ لوگ سلیکٹڈ ہیں تو 35سال پہلے اشاروں پر چلنے والی مخلوق تھی، بعض بے زبان جو خود نہیں بول سکتے وہ حاصل بزنجو کے سینیٹ میں شکست کے بعد جنرل فیض پر کسے گیے ایک فقرا پر ایسے واہ واہ کر رہے ہیں جیسے اچھے شعرپر داد دی جاتی ہے۔
حاصل بزنجوصاحب کی کسی نے جمہوریت پسندی دیکھنی ہو تو 1990میں بننے والی آہی جی آہی میں پیسے لینے والوں کی فہرست دیکھ لیں، نوازشریف بھی آپ کو سلیکٹڈز کی قیادت کرتے نظر آہیں گے، وہ اتحاد بنا تھا خالص جمہوری انداز سے جیتنے والی بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کے خلاف، پیسے لینے والوں کی فہرست میں عصر حاضر کے فرشتے موجود تھے۔
بے نظیر بھٹو کی وفات کے بعد جس طرح آصف زرداری صاحب نے حکومت یا ،سیاہ ست، کی وہ بھی سب کے سامنے ہے، کسی کو یاد دہانی کی طلب ہو تو بلوچستان میں ن لیگ اور اتحادیوں کی حکومت کا تختہ ہونے کے مناظر چشم تصور میں لا کر دیکھے۔ زرداری صاحب نے کس کے حکم پر صوباہی حکومت گراہی تھی اور سنجرانی صاحب کو کرسی دینے میں معاونت کس نے کی؟
چوتھے بڑے اپوزیشن رہنما مولانا فضل الرحمان ہیں جو بی بی کے بھی اتحادی تھے مشرف کے ساتھ بھی خوش رہے ہر حکومت میں ایڈجسمنٹ ہلال اور عین جمہوری تھی اس بار خود بھی آوٹ اور ان کی جماعت بھی آوٹ ہے تو ان کا من بھی انقلابی ہے، اسٹیبلشمنٹ کے خلاف موٹے موٹے رٹے رٹاے جملے اور لفاظی جاری ہے۔
یہ کتنا تکلیف دہ احساس ہے کچھ لوگ دستور اور قانون کی بالا دستی کی بات کر کے ان لوگوں کو نجات دہندے سمجھ رہے ہیں جن کی سیاسی پیداہش ہی اسٹیبلشمنٹ کے گملوں میں ہو ہی ہے ،قوم کو یاد ہے پانامہ سے پہلے تک نواز شریف اسی لاہن لینتھ پر محدود تھے بلکہ ہمیں بتاتے تھے ہم ایک صفحے پر ہیں، پکڑ میں آہے، بند گلی میں پہنچے تو اسٹیبلشمنٹ کو للکارنا شروع کر دیا۔
انھیں پتہ ہے بچوں کی بے تکی بیان بازیوں نے محاسبے کا اشکنجہ ان کے گرد ٹاہٹ کر دیا ہے۔ کیا ہم بھول جاہیں آپ معاہدہ کر کے باہر گیے دس سال قوم سے جھوٹ بول کر پھر اعتراف کر لیا۔تب آپ نے مقابلہ کیوں نہیں کیا؟ این آر او ملنے کی آج بھی امید بنے تو گونگے بہرے ہو جاہیں گے۔ کیادوسری طرف ہمارا حافظہ کمزور ہے جو آصف زرداری صاحب کے سرے محل سے ایک عر صہ تک لا تعلقی کے بعد ملکیت قبول کر لی تھی۔
کیا یہ لوگ کسی قوم کی رہنماہی کے لاہق ہیں؟ جو کہی دہاہیوں تک اسٹیبلشمنٹ کےمہرے بنے رہے،اقتدار ملا تو لوٹ مار شروع کر دی۔ ملک میں آئین اور قانون کی بالا دستی ہونی چاہیے اس بات سے کو ہی اختلاف نہیں ہے لیکن جب ہمیں دستور کی راہ دکھانے والے خود بد یانت اور کمپروماہزڈ ماضی کے حامل ہوں تو پھر ان کی تقلید کیوں کی جاہے؟
فرض کیا یہ سچ مچ انقلابیے ہو گیے ہیں تو کیا اصغر خان کیس کا فیصلہ آنے کے بعد ن لیگ حکومت نے اس پار کے زمہ داروں کے خلاف کارواہی کا سوچا بھی تھا؟ ان میں تو اتنی جرت نہیں ہوہی کہ مشرف کا راستہ روکتے ۔بلکہ سپریم کورٹ کے کھاتے ڈال کر دستور کی بالا دستی کے دعویدار خاموشی سے ایک طرف ہو گیے تھے۔
مانا عمران خان کو بھی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور جمہوریت کی رفتار بھی وہی ہے۔ لیکن اس میں بہت واضح فرق ہے، میاں صاحب ہر رٹایا گیا جملہ بولتے تھے، اعلی سطح کے اجلاسوں کی پی ایم اور آرمی چیف صدارت کرتے تھے۔ پرچی سے بولنا راءج الوقت تھا عمران خان کو تاریخ اور جغرافیہ سے بھی واقفیت ہے اور فی البدیع بولنے کا ہنر بھی رکھتے ہیں اور ان کی دیانتداری پر بھی کو ہی سوالیہ نشان نہیں ہے۔
یہ عمران خان ہی تھاجو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے بیٹھ کر کہہ رہا تھا کہ میں امریکی جنگ کے خلاف تھا میں تب حکومت میں ہوتا تو امریکہ کا اتحادی نہ بنتا۔ کشمیر پر پیش رفت اورثالثی کی ٹرمپ کی پیشکش عمران خان کے دو ٹوک موقف کا ہی تسلسل تھا، ہاں معیشت کے جس گھڑے میں ن لیگ ملک کو پھینک کر گہی تھی عمران ابھی تک نکال نہیں سکے۔
عوام کو مطمن کرنا ہوتا تو آپ پٹرولیم ،بجلی، گیس کی مسلسل بڑھتی قیمتوں کے خلاف سڑکوں پر نکلتے حکومت کو فیصلے واپس کرنے پر مجبور کرتے، ٹیکسز کی بھر مار پر پارلیمنٹ شور مچاتے ۔لیکن ہم نے پارلیمٹ میں شور سنا تو پروڈکشن آرڈرز کے لیے۔ کچہری میں جیالوں کا احجاج دیکھا زرداری صاحب کی پیشی پر۔
مریم نواز کی اداروں کے خلاف تقاریر سنی، وزیراعظم کو نالاہق کہتی رہیں،جج کی ویڈیو چلاتے دیکھا مقصد صرف ایک تھا کہ دباو ڈالو۔ ابا جی کو ریلیف مل جاہے۔ مہنگاہی کے طوفان کے خلاف ریلی نکالنے یا عوام کی بات کرتے نہیں سنا۔ یہ بعید نہیں ہے کہ کل کلاں اگر ان کی ڈیل ہو گہی تو ان کا انقلاب ایسے جھاگ کی طرح بیٹھ جاہے گا جیسے کل سینیٹ میں ان کے 14 سینیٹرز بیٹھے ہیں۔ یہ انقلاب لاہیں گے؟ یہ منہ اور مسور کی دال۔
Comments are closed.