پروفیسر کی طالبہ سے ڈیمانڈ
طاہر چودھری ایڈووکیٹ
پشاور یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ ایک پروفیسر صاحب کی غیر اخلاقی ڈیمانڈ نہ ماننے پر اسے ایک ہی مضمون میں بار بار فیل کیا جا رہا ہے۔اس نے باقی سب مضامین میں اے ون گریڈ حاصل کیا۔لیکن اس مضمون کے پروفیسر صاحب اسے اپنے مضمون میں بار بار فیل کر رہے ہیں۔
وہ ان پروفیسر صاحب کی غیر اخلاقی ڈیمانڈ نہیں مان سکتی۔اس کے اس مضمون کے پیپر نکلوا کر چیک کئے جائیں۔یونیورسٹی اس پروفیسر کیخلاف کارروائی کرے یا عدالت اسے بتا دے کہ اگر پاس ہونے کا یہی طریقہ ہے تو وہ پڑھائی چھوڑ دے۔
دوران سماعت جسٹس اکرام اللہ خان نے کہا کہ انہیں سب پتہ ہے کہ انٹرویوز میں کیا ہوتا ہے۔وہ معاملے کو دیکھ لیں گے۔عدالت نے طالبہ کا پیپر پیش کرنے کا حکم دیا اور سماعت 11 اگست تک ملتوی کر دی۔
میں قانون سے آگاہی سے متعلق پوسٹس لکھتا رہتا ہوں۔پچھلے 2 ماہ میں یہاں لاہور سے 3 یونیورسٹی طلبہ قانونی رہنمائی کیلئے مجھ سے رابطہ کرچکے ہیں۔ان میں سے ایک یونیورسٹی طالبعلم کو اپنی خاتون استاد جبکہ 2 طالبات کو اپنے پروفیسرز سے تقریبا اسی طرح کی شکایات ہیں۔
مجھے نہیں پتہ ہےان الزامات میں کتنی سچائی ہے اور کتنا جھوٹ،یہ فیصلہ متعلقہ فورمز کریں گے۔ایک طالبہ نے ایف آئی اے میں درخواست دائر کر دی ہے۔ایف آئی اے افسران ابھی تک تو تعاون کر رہے ہیں۔امید ہے کہ داد رسی ہوگی۔
چند دن پہلے ملتان کے ایک یونیورسٹی پروفیسر سے متعلق اسی طرح کی خبریں سامنے آئیں تھی جبکہ اس سے پہلے کراچی سے بھی اسی طرح کا ایک ایشو سامنے آیا تھا۔آج پشاور یونیورسٹی کی ایک طالبہ ہمت کر کے عدالت آگئی ہے۔
طالبات کو اپنے ہی یونیورسٹی اساتذہ کی جانب سے ہراساں کرنے کی کوئی خبر ملتی تو دل دکھی ہوتا ہے۔
پڑھے لکھے لوگ،پروفیسر صاحبان۔۔۔۔۔اساتذہ اور پروفیسرز ہمارے لئے قابل احترام،انہی کی وجہ سے آج ہمیں سچ کو سچ کہنے اور غلط کو غلط کہنے کا شعور آیا۔مجموعی طور پر ہمارے اساتذہ قابل تقلید ہیں،لیکن اس طرح کے واقعات اس مقدس پیشے کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔
ہمارے معزز اساتذہ اور پروفیسرز کو اپنے اندر موجود اس طرح کے لوگوں کی نشاندہی کرنا ہوگی۔یونیورسٹیوں کو بھی اپنا چیک اینڈ بیلنس کا نظام مضبوط بنانا ہوگا۔
امید ہے پشاور ہائیکورٹ میرٹ پر کیس کا فیصلہ کرے گی۔اگر پشاور یونیورسٹی کی طالبہ کا موقف ٹھیک ہے تو ان پروفیسر صاحب کو فوری یونیورسٹی سے نکال باہر کیا جائے گا اور سزا دی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متذکرہ موقف سے تھوڑا آگے۔تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ایسی ہی خبریں، قاہداعظم یونیورسٹی اسلام آباد ،جامشورو اور دیگر جامعات سے بھی آتی رہی ہیں لیکن ہمیشہ ان حرکتوں کے مرتکب سزا سے بچ جاتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے ایسے بلیک میل ہونے والی طالبات میں بھی کمزوریاں ہوتی ہیں جو تعلیم کی بجاہے شارٹ کٹ سے آگے نکلنا چاہتی ہیں۔
والدین یا سر پرست برابر کے ذمہ دار ہوتے ہیں جو بچیوں کو ان نامحرموں کے ہاں چھوڑ کر پھر خبر ہی نہیں لیتے کہ وہ کس حال میں ہیں۔ ایسی طالبات گھر والوں کو بھی ہمیشہ اندھیرے میں رکھتی ہیں اور گھر میں باپ یا بھاہی کو ہمیشہ مثبت پہلو بتا کر آزادی حاصل کر لیتی ہیں اور پھر ایک دن پواءنٹ آف نو ریٹرن آجاتا ہے۔
بعض لوگ لڑکیوں کو اعتماد دینے کے نام پرسوشل میڈیا پر غیر لوگوں سے گپ شپ اور رابطوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں لڑکی اکیلی کدھر جاتی ہے کس کس سے رابطے ہیں حتی’کہ شہرسے باہر طلبہ اوراساتذہ کے ساتھ سفر اور رہنا بھی انکےضمیر کونہیں جگاتا۔
جب یہ کہاجاتا ہے کہ یہ مقدس پیشہ ہے اور اساتذہ کو سمجھنا اور خیال رکھنا چاہیے تو کیا والدین کو خیال نہیں رکھنا چاہیے کہ یونیورسٹی سے واپسی پراساتذہ سوشل میڈیا پر کیوں ٹچ رہتے ہیں؟ کلاس کے علاوہ آوٹنگ کیوں؟ اورجب خودآنکھیں بندکر دیں تو ایسے واقعات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
Comments are closed.