آپ کا پارسل آیا ہے !

شہر یار خان

میں ایک روز دفتر میں کھانا کھا رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی، نمبر میرے پاس محفوظ نہیں تھا مگر عادت کے مطابق کھانا کھاتے کھاتے فون اٹھا لیا۔۔ دوسری جانب سے کوئی بولا کہ شہریار صاحب، میں پاکستان پوسٹ سے بات کر رہا ہوں۔۔
میں بہت حیران ہوا کہ ڈاکخانے والوں کو مجھ سے کیا کام پڑ گیا۔۔ کیونکہ بہت مدت ہوئی نہ کوئی خط ملا نہ کسی کو خط لکھا پھر یہ کیا ہے؟

میں نے کہا حکم کریں بھائی۔۔ وہ بولا کہ آپ کا پارسل آیا ہے وہ کہاں ڈیلیور کرنا ہے؟۔ میں نے کہا جس نے پارسل بھیجا ہے اس نے ایڈریس نہیں بتایا تو جواب میں اس نے پورا ایڈریس بتایا اور کہا کہ آپ کہاں پارسل کی ڈیلیوری چاہتے ہیں؟۔
مجھے معاملہ مشکوک ہی دکھائی دے رہا تھا اس لیے کہا جو ایڈریس دیا گیا ہے وہیں پہنچا دیں، پوچھنے کی کوئی وجہ نہیں۔۔

وہ جواب میں بولا کہ سر اکثر لوگ کہتے ہیں کہ مجھے دفتر کے ایڈریس پر بھجوا دیں یا کہیں اور منگوا لیتے ہیں۔۔ بہرحال، ساتھ ہی وہ بولا کہ آپ کے فون پر ڈیلوری کا کوڈ آیا ہو گا وہ مجھے بتا دیں تاکہ میں اسے کنفرم کر دوں۔

معاملہ میری سمجھ میں آ چکا تھا کہ یہ ہیکرز ہیں اور مجھ سے میرا واٹس ایپ کا کوڈ لینا چاہ رہا ہے۔۔ میں نے جواب میں اسے بہت سنجیدگی سے کہا کہ بھائی میں پہلے سے شادی شدہ ہوں، بہن کا رشتہ کہیں اور تلاش کریں۔۔
دفتر کے سارے دوست اس ساری صورتحال کو سمجھ چکے تھے انہوں نے قہقہے لگانے شروع کر دئیے۔ پاکستان پوسٹ والے نے شرمندہ ہو کر کال کاٹ دی۔

یہ معاملہ ہونے کے بعد میں نے فیس بک پر پوسٹ لگائی اور تمام دوستوں کو اس حوالہ سے انتباہ کیا کہ ہیکر آپ کا واٹس ایپ ہیک کر سکتا ہے اس لیے محتاط رہیں اور کوئی بھی شخص کسی بھی بہانے سے کوئی کوڈ مانگے تو وہ نہ بتائیں۔
اس کے چند روز بعد میرپور سے ہمارے ایک پرانے دوست رضوان اکرم نے فون کیا اور بتایا کہ آپ کی پوسٹ پڑھ کے میں تو محتاط ہوا مگر میں نے اپنے دوستوں کو آگاہ نہیں کر سکا اور ہمارے ایک دوست نے آج ایک دوست کا میسج آنے کے بعد فوری طور پر ڈیڑھ لاکھ روپے بھیج دیئے.
پھر دوست کو تصدیق کے لیے فون کیا تو اس نے بتایا کہ میں نے تو پیسے مانگے ہی نہیں، جو فون اب کر رہے ہیں وہ پہلے کر لیتے۔

میں نے ان سے کہا کہ میرا میسج تمام دوستوں کو بھیجیں تاکہ سادہ لوگ اس قسم کے فراڈ سے بچ سکیں۔ ابھی کل ہی مجھے پھر فون آ گیا اور اتفاق کی بات ہے کہ میرے اہل خانہ بھی میرے ساتھ تھے، اب کی بار وہ ٹی سی ایس کا ملازم بنا.
مجھے میری تفصیلات بتائیں حتیٰ کہ یہ بھی بتایا کہ میں سنو نیوز میں کام کرتا ہوں اور پھر مجھے پارسل پہنچانے کی خواہش کا اظہار کیا۔۔ میں نے ہنستے ہنستے اس کی بھی طبیعت صاف کی۔۔ میرے بیٹے نے یہ تمام گفتگو سنی اور خوب ہنسا۔

شام کو دفتر سے واپس آ کر گھر میں کپڑے بدل کر رضائی کو سیدھا ہی کیا تھا ایک انجان نمبر سے فون آیا، اٹھانے پر اس نے اپنا تعارف تھانہ صدر کے سب انسپکٹر محمد اکرم کے طور پر کروایا۔
پھر کہا کہ آپ کا ایک بیٹا ہے۔ میں نے کہا یہ آپ پوچھ رہے ہیں یا بتا رہے ہیں؟۔ تو وہ کہنے لگا آپ کے کتنے بیٹے ہیں؟۔ میں نے کہا کام کی بات کرو۔۔ میرے لہجے کی تلخی نے اسے بہت کچھ سمجھا دیا۔۔ اس نے گھبرا کے فون کاٹ دیا۔

عموماً ہو یہ رہا ہے کہ یہ پولیس والا بن کے کسی کو فون کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا کہ آپ کا بیٹا، بھتیجا یا بھانجا ہم نے گرفتار کیا ہے۔۔ پندرہ، بیس، پچیس ہزار یا جتنے پہ بھی بات بن جائے اتنے ایزی پیسہ سے منگوائے جاتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ بچہ تھوڑی دیر میں گھر پہنچ جائے گا۔۔
وہ بچہ جو کبھی گرفتار ہی نہیں ہوا ہوتا وہ جب گھر پہنچتا ہے تو کہیں ماں باپ اس کے واری صدقے جاتے ہیں تو کہیں جوتیاں لگائی جاتی ہیں جس کے بعد معلوم پڑتا ہے کہ آپ کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔۔

اب ہر فون رکھنے والے کو یہ یقینی بنانا ہو گا کہ کوئی بھی شخص کوڈ مانگے تو کوڈ مت دیں، کوئی آپ کو بتائے کہ بیٹا، بھتیجا، بھانجا گرفتار ہے تو پہلے چیک کر لیں کہ وہ کہاں ہے؟
فون پہ بات سن کر پیسے مت بھجوائیں۔ یہ پیغام خود پڑھ لیا ہے تو اپنے دوستوں، رشتے داروں کو بھی بھیجیں تاکہ وہ بھی فراڈ سے محفوظ رہ سکیں۔

آپ کا پارسل آیا ہے !

شہریاریاں ۔۔۔ شہریار خان

Comments are closed.