اسرائیل اور حماس کے نمائندوں کے درمیان بالواسطہ مذاکرات مصر میں شروع

{"remix_data":[],"remix_entry_point":"challenges","source_tags":[],"origin":"unknown","total_draw_time":0,"total_draw_actions":0,"layers_used":0,"brushes_used":0,"photos_added":0,"total_editor_actions":{},"tools_used":{"transform":1},"is_sticker":false,"edited_since_last_sticker_save":true,"containsFTESticker":false}

فوٹو : فائل

شرم الشیخ : اسرائیل اور حماس کے نمائندوں کے درمیان بالواسطہ مذاکرات مصر میں شروع ہوگئے، ذرائع کے مطابق یہ مزاکرات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جلدی کرنے کے باوجود چند دن تک جاری رہیں گے۔

مصر کے شہر شرم الشیخ میں پیر کے روز اسرائیل اور حماس کے نمائندوں کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہوا، جن کا مقصد غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں و مغویوں کے تبادلے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، مصر کی ریاستی انٹیلیجنس سے منسلک القاہرہ نیوز نے رپورٹ کیا ہے کہ دونوں فریقین کے وفود قیدیوں اور زیرِ حراست افراد کی رہائی کے لیے زمینی حالات کی تیاری پر بات چیت کر رہے ہیں۔ یہ عمل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ غزہ امن منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مصری اور قطری ثالث قیدیوں کے تبادلے کا ایک مؤثر نظام تشکیل دینے پر کام کر رہے ہیں۔ مذاکرات سخت سیکیورٹی میں بند دروازوں کے پیچھے ہو رہے ہیں، جہاں پیغامات براہِ راست نہیں بلکہ ثالثوں کے ذریعے منتقل کیے جا رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق، مذاکرات ایسے وقت میں شروع ہوئے ہیں جب چند ہفتے قبل اسرائیل نے قطر میں حماس کے مرکزی مذاکرات کاروں پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
دوحہ حملے سے بچنے والا وفد ہی شرم الشیخ مذاکرات کی قیادت کر رہا ہے۔

مصری سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، حماس کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیہ، جو دوحہ میں اسرائیلی حملے سے محفوظ رہے، مذاکرات سے قبل مصری انٹیلیجنس حکام سے ملاقات کر چکے ہیں۔
فلسطینی ذرائع کے مطابق، یہ بات چیت کئی روز تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

ایک فلسطینی ذریعے نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’’یہ مذاکرات انتہائی مشکل اور پیچیدہ ہوں گے، کیونکہ اسرائیل کی نیت جنگ جاری رکھنے کی ہے۔‘‘

ادھر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایلچی سٹیو وٹکوف اور داماد جیرڈ کشنر کو مصر روانہ کرنے کا عندیہ دیا ہے اور ثالثوں پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے جلد پیش رفت کریں۔

فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی قیدیوں کا تبادلہ چند دنوں میں ممکن ہو سکتا ہے، تاہم اس کا انحصار زمینی حالات، اسرائیلی انخلا، بمباری کے خاتمے اور فضائی کارروائیوں کی معطلی پر ہوگا۔

دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے پیر کے روز بھی جاری رہے، جن میں کم از کم سات فلسطینی شہید ہوئے۔

اگرچہ حماس اور اسرائیل دونوں نے ٹرمپ کے منصوبے پر ابتدائی طور پر مثبت ردعمل دیا ہے، لیکن اتفاق رائے حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔
منصوبے میں جہاں حماس کو غیر مسلح کرنے کی شق شامل ہے، وہیں غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کی بات بھی کی گئی ہے۔

تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد بھی غزہ میں فوجی موجودگی برقرار رکھی جائے گی۔

قبل ازیں ہونے والے مذاکرات بھی اس وقت تعطل کا شکار ہوئے تھے جب فلسطینی قیدیوں کی فہرست پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا۔

شرم الشیخ : خدشات،توقعات اور غیر یقینی کے ساتھ آج حماس،اسرائیل اور امریکہ کے مزاکرات ہو گئے ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مزاکرات کی کامیابی کیلئے پر امید بھی اور ٹیبل پر بیٹھنے سے قبل حماس کو دھمکا بھی رہے ہیں.

فریقین کے  مذاکرات کا محور صدر ٹرمپ کا 20 نکاتی امن منصوبہ ہوگا، اسرائیلی وفد مذاکرات کے لیے آج مصر روانہ ہوگا۔

ان مزاکرات میں امریکی صدر ٹرمپ کے داماد جیراڈ کشنر،خصوصی ایلچی اسٹیووٹکوف امریکا کی نمائندگی کریں گے، بالواسطہ مذاکرات کے لیے حماس کے وفد کی آمد بھی متوقع ہے۔

دوسری جانب عرب میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس بین الاقوامی نگرانی میں اسلحہ سپرد کرنے پر رضامند ہے اور بڑی پیش رفت کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ معاہدے میں ہمیں زیادہ لچک کی ضرورت نہیں کیونکہ سب ہی متفق ہیں، کچھ تبدیلیاں تو ہمیشہ ممکن رہتی ہیں، وہ برسوں سے ایک منصوبے کے لیے لڑتے رہے ہیں، لوگ اس پیش رفت سے بہت خوش ہیں۔

حماس کے اتفاق پر جنگ بندی فوری طور پر مؤثر ہو سکتی ہے، غزہ معاہدہ پوری دنیا کے لیے عظیم معاہدہ ہے،اس کے ساتھ ساتھ دھمکی بھی دی کہ غزہ سے کنٹرول ختم نہ کیا تو حماس کا مکمل خاتمہ کردیں گے۔

اس حوالے سے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ نوے فیصد معاملات طے ہوچکے ہیں جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں ابھی کوئی جنگ بندی نہیں، کچھ جگہ عارضی بمباری روکی ہے۔

Comments are closed.