اداریہ کی موت،منہ میں مائیک ٹھونسنے کا رجحان
محبوب الرحمان تنولی
صحافتی حلقوں میں گزشتہ دنوں سے منادی ہورہی ہے کہ پاکستان کے پرانے اورمعتبراخبار روزنامہ جنگ نے اداریہ ختم کردیا ہے،طرح طرح کی دلائل بازی جاری ہے، وہ احباب جنھوں نے دو تین دہائیوں سے صحافت دیکھی ہوئی ہے وہ اس حوالے سے زیادہ تشویش میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔
اس موضوع پر وہ احباب بھی طبع آزمائی کرتے نظرآتے ہیں جنھوں نے میری طرح گزشتہ کئی ماہ سے کوئی اداریہ پڑھا ہی نہیں ہے۔وطن عزیز میں صحافت تقریباً آخری سانس لے رہی ہے اور جب سے موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے انتظام سنبھالا ہے تب سے توصحافت کے معنی ہی بدل گئے ہیں۔مہذب ممالک میں اس جدید دور میں بھی اخبارات کے ادارتی صفحات کو اہمیت حاصل ہوگی لیکن ہمارے ہاں تو اداریہ کی اہمیت لکھنے والے کی مشقت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی۔
نہ کوئی پڑھتا ہے اور نہ ہی ارباب اختیار اس کو اہمیت دیتے ہیں ،جہاں دن رات سوشل میڈیا کی چیخ وپکارپر بھی ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی وہاں ایک اداریہ کیا اہمیت رکھتا ہے، سوشل میڈیا پر جس کو گالی پڑتی ہے وہ شایداس کا اثر لیتا ہے اس کے علاوہ کوئی توجہ نہیں دیتا۔
اخبارات کے اداریے گزشتہ ایک سال سے بجلی بلز پرسلیبز کے نام پر جگا ٹیکسز پر ماتم کررہے ہیں کسی نے سنا ہے؟ حکمران تو ہیں ہی بہرے کسی سرکاری افسر نے بھی اس کا نوٹس لیا ہو؟ اداریہ کا معیار بھی اب وہ نہیں رہا ،اب اداریے بھی اپنے ریکارڈ میں رکھنے کےلئے فرمائشی ہو گئے ہیں حالانکہ پڑھتا کوئی نہیں ہے۔
پہلے الیکٹرانک میڈیا نے آ کر پرنٹ میڈیا کی اہمیت کو چیلنج کیا تھا تو کہا جاتا تھا کہ اخبار کی خبریا اداریہ کی اپنی اہمیت ہوتی ہے، پھر خبرکوزندہ درگورکردیا گیا،حالیہ کچھ عرصہ سے تو میڈیا کی زینت وہی خبر بنتی ہے جو زیادہ ترحکومت کی طرف سے جاری ہوتی ہے یا پھر آئی ایس پی آر کے ذرئعے میڈیا ہاوسز تک خبریں پہنچتی ہیں۔
کبھی کھبار ایکسکلوسیو خبردینے کےلئے رپورٹرزپر دباو زیادہ ہوتا تھا مگر اب وہ بھی نہیں رہا کیونکہ جب رپورٹر کوئی خبر نکال کرلاتا ہے تو مالکان میں اسے شائع کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ اوپر سے مسلم لیگ ن کی حکومت میں تو میڈیا مالکان کو اتنے اشتہارت دے دیئے جاتے ہیں کہ مخالف میں لکھنا یا کسی بے قاعدگی کی نشاندہی کرنا بھی ناممکن ہوگیاہے اخبارات کےلئے ، اور جوہمت کرلے پھر اس کے اشہتارات بند ہوجاتے ہیں۔
ایسے میں اگراداریہ ختم کردیا ہےتو یہ کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہے، کیونکہ جب کوئی پڑھتا ہی نہیں تو پھر، جنگل میں مورناچاکس نے دیکھا،، کے مصداق اداریہ لکھنے کا تکلف ہی ہے، اب چھوٹے اخبارات بھی یقیناً اس فیصلے کی تکلید کریں گے اورآہستہ آہستہ یہ اضافی بوجھ اترجائے گا، اداریہ مہذب ممالک کے میڈیا میں ایک ویک اپ کال کی حثیت رکھتا ہے جس کو ارباب اختیاردیکھتے پڑھتے اور اس کا اثر لیتے اور اس سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
اکثر آپ نے سنا ہے کہ فلاں یورپی یا امریکی اخبارنے اپنے اداریہ میں یہ لکھا ہے ، وہ لکھا ہے کہ حوالےہم مختلف خبروں اور رپورٹس میں بھی دیتے ہیں کیونکہ وہاں اس کوشش کو سنجیدہ لیاجاتاہے، وطن عزیز میں کوئی ہے جوہماری اسٹیبلشمنٹ پر تنقیدی نوٹ لکھے یا انھیں روڈ میپ دے؟ بلکہ ہمارے ہاں راویت بدل گئی ہے خاص کرہائبرڈ حکومت میں، اب تک ارباب اختیار میڈیا اداروں کو روڈ میپ دیتے ہیں کہ صحافت کیسے کرنی ہے، کیا چیز پبلش کرنی ہے کیا نہیں، جو بھی ناپسند ہو،بغیر کسی قانون کا حوالہ دیئے اس کانام سنسرڈ ہوجاتاہے۔
مجال ہے کہ کوئی میڈیا ہاوس یہ پوچھنے کی جسارت بھی کرے کہ کس قانون کے تحت آپ یہ نام شائع یا نشر ہونے سے روک رہے ہیں؟ ہمارا نظام ہی نہیں،معاشرہ، ادارے ، اورمیڈیا بھی انحطاط پذیر ہےاورسوشل میڈیا نے آکرتوپرنٹ میڈیا پرجھاڑو پھیر دیاہے، اب تو اچھے اچھے کالم نگار بھی کوشش کرتےہیں کہ وہ اپنا کوئی رائٹ اپ اخبار میں شائع کروانے کی بجائے سوشل میڈیا پر ہی شیئرکردیں کیونکہ اخبارات کی نسبت سوشل میڈیا کی ریچ زیادہ ہے۔
پاکستان ایسے ملک میں جہاں آئین و قانون کو بااثرطبقہ کوئی اہمیت نہیں دیتا اور ہرکام طاقت کے زور پرکیاجاتا ہے وہاں کسی اخبار میں اداریہ لکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہاں تومہنگائی کے ہاتھوں لوگ بال بچوں سمیت خودکشیاں کرتے ہیں مگر حکمرانوں کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی، اس کی زندہ مثال بجلی بلز کے سلیزہیں جو کے 200 یونٹس سے 2001 ہونے پر ڈبل ہوجاتے ہیں اوراسی حساب سے باقی سلیزکے نرخ بھی ظالمانہ ہیں ۔
نافذ کرنے والے بھی تسلیم کرتےہیں کہ یہ ظلم ہے، سوشل میڈیا پر بھی لوگ چیختے چلاتے ہیں، پارلیمنٹ میں بھی بازگشت رہتی ہے مگر اس کے باوجوداس ظلم کا تدارک نہیں ہوپاررہا ، کیونکہ اس کے بینی فیشری حکمران ہی ہیں ہم سے سلیبزکے نام پر یہ جگا ٹیکس لیتے ہیں تو ان کی عیاشیوں کےلئے اخراجات کاسامان ہوتا ہےایسے میں انھیں کیا پڑی ہے کہ وہ اپنی ہی آمدن پرکٹ لگائیں۔
بدقسمتی سے اوپر سے صحافت بھی ٹارگٹڈ ہوچکی ہے،رپورٹر کو جو بیٹ دیں وہ سمجھتا ہے وہ اس سیاسی جماعت یا شعبہ میں شامل ہوگیاہے ،اب تو شہر میں جتنے رپورٹرز ہیں بیشتر کے بارے میں سب جانتے ہیں یہ کس جماعت، کس لیڈر یا کس ادارے کاخیر خواہ ہے،سوشل میڈیا پر بھی انہی کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں، وہ غیر جانبدار صحافی کا تصورقریباً فوت ہو چکا ہے۔
اب مخالف خبر شائع ہونے کےلئے مخالف ہونا ضروری ہے کیونکہ حامی ایسی خبریں نظر انداز کرتے ہیں جو کہ ان کی بیٹ کے مخالف ہوں،پی ٹی آئی ، مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی سمیت ہرجماعت کے بیٹ رپورٹرز انہی کے ہمنوا نظر آتے ہیں جب کہ ڈیفنس رپورٹرز تو لگتا ہے آئی ایس پی آر کے ہی نمائندے ہیں یہ خطرناک رجحان صحافتی اقدارکی نفی اور اس کی اہمیت ختم کررہا ہے،اسی لئے اب ہمیں میڈیا ٹاک کے بعد بھی صحافی ٹارگٹڈ لوگوں کے پیچھے بھاگتے اورمنہ میں مائیک ٹھونستے نظر آتے ہیں کیونکہ انھیں یہ ٹاسک بھی ملا ہوتا ہے کہ یہ سوال کرنا ہےجواب نہ بھی ملے توکیا کرناہے۔
اداریہ کی موت،منہ میں مائیک ٹھونسنے کا رجحان
Comments are closed.