وفاقی کابینہ کے بعد سینیٹ نے بھی 26 آئینی ترمیم کی منظوری دیدی

53 / 100

فوٹو:فائل

اسلام آباد: سینیٹ نے چھبیسویں آئینی ترمیم کا بل منظور کرلیا ہے اس طرح وفاقی کابینہ کے بعد سینیٹ نے بھی 26 آئینی ترمیم کی منظوری دیدی آئینی ترمیمی بل دو تہائی اکثریت سے منظور کیا گیا،ترامیم کے حق میں پینسٹھ ووٹ آئے۔

آئینی ترمیم کے حق میں حکومت کے 58، جمعیت علمائے اسلام کے 5 اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے 2 ووٹ پڑے۔ چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیرصدارت سینیٹ اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیم پیش کی۔ وزیر قانون کا کہنا تھاکہ 26 ویں آئینی ترمیم پیش کرنا چاہتا ہوں، سینٹ میں آئینی ترامیم پر ووٹنگ کی تحریک کی اپوزیشن کے چار ارکان نے مخالفت کی۔

اس سے قبل وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت اجلاس میں وفاقی کابینہ نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی جس کے بعد یہ بل منظوری کےلئے ایوان بالا میں پیش کیاگیا۔

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس ہوا ۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے چھبیس ویں آئینی ترمیم کا بل ایوان میں پیش کیا ۔ جسے دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا گیا ۔ ترامیم کے حق میں 65 ووٹ آئے،ایک شق کی مخالفت میں 4ووٹ آئے۔

پی ٹی آئی نے آئینی ترمیم کے حوالے سے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا،چھبیسویں آئینی ترامیم کا بل بائیس شقوں پر مبنی ہے ۔ جس کے مطابق سپریم کورٹ کا آئینی بینچ تشکیل دیا جائیگا ۔ جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تقرر کرے گا ۔

آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے۔ آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا ۔ آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔

آئینی بینچ کم سے کم پانچ ججز پر مشتمل ہوگا ۔ آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی ۔ چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا۔

پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی ۔ کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے ۔ پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی تعیناتی دو تہائی اکثریت سے کریگی۔

کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا ۔ چیف جسٹس کے تقرر کے لئے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائےگی ۔ پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔

پارلیمانی کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی چار ارکان سینٹ ہوں گے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال ہوگی چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کی گئی ہے۔

آرٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی آرٹیکل 186 اے کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے۔

ججز تقرری کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا ۔۔ سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر جوڈیشل کمیشن کرے گا ۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں چار سینیئر ترین ججز شامل ہوں گے۔

وفاقی وزیر قانون اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے ۔دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینٹ کمیشن کا حصہ ہوں گے سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون یا غیر مسلم کو بھی دو سال کے لیے کمیشن کا رکن بنایا جائے گا۔

آرٹیکل 38 میں ترمیم کے تحت جس حد تک ممکن ہو سکے یکم جنوری 2028 تک سود کا خاتمہ کیا جائے گا۔ وزیر یراعظم یا کابینہ کی جانب سے صدر مملکت کو بھجوائی گئی ایڈوائس پر کوئی عدالت، ٹریبیونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکتی ۔ شریعت کورٹ میں سپریم کورٹ جج لگایا جاسکے گا۔

Comments are closed.