بی ایل اے کی موجودگی
ضیغم عباس
پچیس آگست کے بعد سے امن دشمن عناصر بلوچستان لبریشن آرمی نے کاروائیاں تیز کردیں،حال ہی میں اس گروپ نے اپنے آپریشن "ہیروف” کا اعلان کیا جس میں خواتین اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سمیت 130 شہریوں کی شہادت کی ذمہ داری قبول کی گئی۔ملک دشمن عناصر کے آلہ کاروں نے کئی گھرانوں پر مظالم ڈھائے۔
بی ایل اے کے اقدامات نے نہ صرف قیمتی جانیں لی ہیں بلکہ اہم ٹرانسپورٹیشن انفراسٹرکچر کی تباہی کا باعث بھی بنی ہے۔ مختلف علاقوں میں گاڑیوں کو جلا دیا گیا ہے، اور ضروری سامان کی ترسیل میں شدید خلل پڑا ہے، جس سے بلوچستان کے پہلے سے کمزور سماجی تانے بانے کو مزید غیر مستحکم کیا گیا ہے۔
بی ایل اے خود کو بلوچ عوام کے حقوق کی وکالت کرنے والی ایک آزادی پسند قوت کے طور پر پیش کرتا ہے، لیکن انکے اقدامات اور شدت پسندانہ کاروائیوں نے انکے جھوٹے دعووں کی قلعی کھول دی ہے ،ان کے پرتشدد طریقے براہ راست ان کمیونٹیز کے حقوق اور فلاح و بہبود کو مجروح کرتے ہیں جن کی وہ خدمت کرنے کے دعوے کرتے ہیں۔
بی ایل اے کی جانب سے استعمال کیے جانے والے سب سے زیادہ خطرناک حربوں میں سے ایک خواتین کا استحصال ہے۔ حالیہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ گروپ نوجوان بلوچ خواتین کو خودکش حملوں میں حصہ لینے پر مجبور کرنے میں ملوث پایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ یہ گروپ بھتہ خوری کو اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ یہ پریشان کن رجحان نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ معاشرتی اقدار کے ساتھ غداری کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔
خواتین اور طالبات کو دہشت گردی کے کلچر میں شامل کرنا استحکام کے لیے ایک اہم خطرہ ہے اور بنیادی اسلامی اصولوں سے متصادم ہے۔ جیسا کہ بی ایل اے اپنی پرتشدد مہم جاری رکھے ہوئے ہے، بلوچستان کے لوگوں کے لیے اس بڑھتے ہوئے خطرے کے خلاف متحد ہونا ہے۔
انتہا پسند تنظیموں کے اثر و رسوخ کے خلاف قومی اتحاد کے ساتھ مزاحمت کرنا ضروری ہے۔بلوچستان کے حالات بدستور نازک ہیں، بی ایل اے کی بربریت کے خلاف اجتماعی موقف کی فوری ضرورت واضح ہے، کیونکہ خطے میں دہشت گردی اور استحصال کی وجہ یہ شدت پسند دھڑا ہے۔
بی ایل اے کی موجودگی
(ادارے کا رائٹر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)
Comments are closed.