صوبوں کے درمیان فرق نہ رہے تو پھر آئینی عدالت کا قیام ناگزیر ہے،بلاول بھٹو

45 / 100

فائل:فوٹو

کراچی: چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ شہریوں کو فوری انصاف ملے اور چاہتے ہیں کہ صوبوں کے درمیان فرق نہ رہے تو پھر آئینی عدالت کا قیام ناگزیر ہے ہم نے وہ آمرانہ دور دیکھے جس میں جج صاحبان نے ہی آمر کو اجازت دی کہ وہ آئین میں ترمیم کرلے، ججز دس دس سال تک آئین کو بھول جاتے تھے اور سارا اختیار آمر کو دے دیا جاتا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ کے وکلا سے تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا وکلا سے تعلق تین نسلوں سے ہے، میرا تعلق اس جماعت سے ہے جس نے ملک کو آئین دیا اور ہم تین نسلوں سے آئین سازی کرتے چلے آرہے ہیں، اگر آج پاکستان موجود ہے، طاقت ور ہے اور اکٹھا ہے تو 1973ء کے آئین کی وجہ سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے آمرانہ دور دیکھے، آئین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے بھی دیکھا، ہمارے معزز جج صاحبان کس طرح سے ایک آمر کو یہ کام کرنے دیتے ہیں اور دس دس سال تک آئین کو بھول جاتے ہیں اور سارا اختیار آمر کو دیا جاتا ہے، اس کے بعد مزید آمرانہ دور دیکھا اور شرم ناک بات یہ تھی کہ جج صاحبان نے آمر کو اجازت دی کہ وہ آئین میں ترمیم کرلے۔

بلاول نے کہا کہ اس وقت بھی بے نظیر شہید جج کے سامنے پیش ہوتی تھی اور جج انہیں آئین کا درس دیتے تھے، ہمیں کرپٹ کہا گیا کہ ہم پر آئین اور قانون لاگو نہیں ہوتا، ایک سیاست دان کو ساڑھے گیارہ سال جیل میں رکھا گیا تاکہ اس نہتی (بے نظیر) کو بلیک میل کیا جاسکے۔

بلاول نے کہا کہ ایک بار پی سی او کا حلف ہوجائے تو ہو ٹھیک کہلاتا ہے اور دوسری بار وہی حلف اٹھایا جائے تو جمہوریت اور آئین کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، ہم نے عوام کے لیے چارٹر آف ڈیمو کریسی کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم عدالت میں اصلاحات لے کر آئیں گے، قانون سازی اور آئین سازی عدالت کے ذریعے نہیں ہوتی آئین سازی کے لیے ہم موجود ہیں، جس ذمہ داری کے لیے عدلیہ بیٹھی ہے وہ کام نہیں ہورہا اگر ہم چاہتے ہیں کہ شہریوں کو فوری انصاف ملے اور چاہتے ہیں کہ صوبوں کے درمیان فرق نہ رہے تو پھر آئینی عدالت کا قیام ناگزیر ہے، اس وفاقی عدالت میں تمام صوبوں کے نمائندے ہوں گے اور باری باری ہر صوبے سے چیف جسٹس مقرر کیا جائے گا، سیاسی کسیز کو 90 فیصد وقت دیا جاتا ہے کہ عوامی کیسز کی باری نہیں آتی اس لیے آئین عدالت بنائیں گے جو صرف آئینی معاملات دیکھے گی۔

Comments are closed.