نیب ترامیم کالعدم رہیں گی یا بحال ہوں گی؟ سپریم کورٹ سے آج بڑا فیصلہ آئےگا

50 / 100

فوٹو: فائل

اسلام آباد : نیب ترامیم کالعدم رہیں گی یا بحال ہوں گی؟ سپریم کورٹ سے آج بڑا فیصلہ آئےگا، نیب ترامیم کالعدم قراردینے کیخلاف حکومتی اپیلوں پرفیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے 6 جون کومحفوظ کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے کازلسٹ جاری کردی ہے جس کے مطابق فیصلہ صبح ساڑھے 9 بجے سنایا جائےگا،وفاقی اورصوبائی حکومتوں نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی تھی۔

نیب ترامیم پی ڈی ایم کے دورحکومت میں منظور کی گئی تھیں۔ نیب قوانین کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 14, 15, 21, 23، 25 اور 26 میں ترامیم کی گئی تھیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے نیب ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 5 ستمبر 2023 کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے 15 ستمبر 2023 کو بانی پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قراردے دی تھیں۔ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 ترامیم کالعدم قراردی تھیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیلیں دائر کی تھیں،سپریم کورٹ نے 10 مئی 2024 کو انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

عمران خان کی درخواست پر5 رکنی لارجر بینچ نے بانی پی ٹی آئی کی بذریعہ ویڈیو لنک پیشی کی اجازت دی تھی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے 6 جون کوفیصلہ محفوظ کیا تھا۔

اس بنچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہررضوی بینچ میں شامل ہیں عدالت اب پورے 3 ماہ بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سنائے گی۔

پی ڈی ایم حکومت میں ہونے والی نیب ترامیم کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا۔ نیب ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ قرار دیا گیا تھا۔

نیب ترامیم کے تحت قرار دیا گیا کہ نیب 50 کروڑ سے کم مالیت کے معاملات کی تحقیقات نہیں کرسکتا۔ ترمیم کے تحت نیب دھوکہ دہی مقدمے کی تحقیقات تبھی کرسکتا ہے جب متاثرین 100سے زیادہ ہوں۔

نیب ترامیم کے تحت ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لیا جاسکتا تھا جسے بعد میں 30 دن تک بڑھا دیا گیا،ترامیم کے تحت نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا۔

ترامیم کے تحت ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو نیب دائرہ کار سے نکال دیا گیا تھا جب کہ افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز متعلقہ اداروں اورعدالتوں کو منتقل کردی گئیں۔

Comments are closed.