مولانا محمد اسحاق خطیب ہزارہ کی برسی

53 / 100

 محمد الیاس لودھی ایڈووکیٹ  

مولانامحمد اسحاق خطیب ہزارہ کی 31 اگست کو برسی ہے۔ مولانا مرحوم نے 1921 میں ایبٹ آباد جامع مسجد کی خطابت سے مسلمانوں میں مذہبی ، سیاسی امور اور اسلامی روایات کو قائم رکھنے میں نئے دور کا آغاز کیا۔ تحریک ہجرت کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کو نا کامی کے بعد اپنی اخلاقی اور مذہبی روایات کو جو سیاسی سماجی لحاظ سے جو نقصان پہنچا تھا اس کا سد باب بہت ضروری تھے۔

حضر ت مولانا ایبٹ آباد سے پہلے ممبئی میں مولانا عبدالقادر قصور صدر خلافت تحریک اور کانگریس کے پاس بحیثیت اتالیق کچھ عرصہ رہ چکے تھے۔ اسلئے آپ کو خلافت تحریک سے آگاہی تھی آپکو حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی شاگردی، انکی ذاتی محفلوں میں بیٹھنے کا مواقع اور ان کی برصغیر کی انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کرانے کی جدوجہد نے آپ کی شخصیت کو ایک صیح علماء حق کی تربیت اور مرکزی شخصیت بنانے میں کافی کردار تھا.

چونکہ آپ کوحدیث، منطق اور قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے میں دیوبند میں حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اور دیگر علمائے کرام کی شاگردی حاصل رہی اور دیوبند اور دیگر مدارس میں پڑھانے کے مواقع بھی ملے۔

اس لئے آپ نے ایبٹ آباد میں بھی خطابت کے درس تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اس میں ایک خاص مقام اور شہرت حاصل کی جس کی وجہ سے ہزارہ کے قبائل اور باقی علاقہ جات اور ملحقہ افغانستان سےبھی طلباء آپ سے پڑھنے کی غرض سے ایبٹ آباد آئے۔

کئی علماء کرام نے قبائلی علاقوں میں مذہبی تعلیم کو جاری رکھا اور وہاں کے عوام میں مذہبی اور سیاسی شعور کی بیداری کی جس میں اس وقت علاقہ آلائی ملحقہ بٹل، بٹگرام میں آپ کے شاگرد رشید مولانا ولی دادنے انگریزوں کے خلاف جدوجہد آزادی میں نمایاں مقام حاصل کیا.

برصغیر انگریزوں سے نجات حاصل کرنے میں عوامی طور پر تحریک جدوجہد آزادی 1857 کے انقلاب سے پہلے حضرت شاہ اسماعیل اور مولانا سید احمد بریلوی ( شاہ ولی اللہ کے پوتے ) انہوں نے سکھوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا مگر مسلمانوں کی اندورنی سازش اور سابقہ صوبہ سرحد میں ان کے اسلامی نظام کی ریاست کی سختی جو کہ مقامی خوانین کو برداشت نہیں تھی۔

ان کی سازشوں سے آخری جنگ بالا کوٹ میں شکست ہوئی( اس پر کئی کتابیں موجود ہیں) تو بچے کچے مجاہدین بذریعہ بٹل، بٹگرام واپس سوات کی طرف لوٹے اور دریائے سندھ کے مغربی کنارہ کے قریب قبائلی علاقہ آکر آباد ہوگئے جن میں ’’ امبالہ‘‘ گاؤں اور اس کے ارد گرد علاقہ جات میں اپنی تشکیل نو کی 1846 ء میں انگریز سرکار نے سکھ حکومت کو شکست دیکر سکھوں کے تمام علاقوں ہزارہ، پشاور، بنوں وغیرہ پر قابض ہوگئے تھے۔

مجاہدین بالا کوٹ جو دوبارہ منظم ہو چکے تھے اور انگریز حکومت کو بھی ان سے خطرہ لاحق تھا۔ مجاہدین نے انگریز فوج پر بھی خفیہ حملہ شروع کر دیئے۔ تاکہ سندھ کے ساتھ ملحقہ علاقوں میں ایک علیحدہ اسلامی سلطنت بن جائے۔جب برصغیر میں دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد ہندوستان میں آزادی کی تحریکیں زور پکڑ رہی تھی مسلم لیگ علیحدہ وطن پاکستان کے مطالبہ پر انگریز حکومت پر مسلسل دبائو ڈال رہی تھی۔

کانگریس اور دوسری سیاسی جماعتیں بھی آزادی کا مطالبہ اور انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے پر تحریکیں چلا رہی تھیں۔ سرحد میں بھی قبائلی علاقوں اور خاص کر صوابی، مردان، سوات کے ملحقہ قبائلی علاقوں میں مجاہدین بالاکوٹ بھی دوبارہ جہاد کیلئے منظم ہو رہے تھے۔

جونہی انگریز ہندوستان سے نکلے تو وہ ان علاقوں کو یک جا کر کے اسلامی حکومت قائم کریں گے۔ اس تنظیم ’’ بام خیل‘‘ تھا اور عظیم کے سربراہ عبدالشکور تھے۔ انہوں نے اپنے ایک خاص نمائندہ جسکا نام مصطفے اعظم پاشا تھا اس کو حضرت مولانا محمد اسحاق خطیب ہزارہ ایبٹ آباد کے پاس ایک خفیہ خط دیکر بھیجا۔

خط میں انہوں نے حضرت مولانا کو لکھا کہ ان کی تنظیم صوابی، گدون کے ملحقہ علاقوں میں اسلامی نظم و نسق شروع کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے اور حامل رقعہ زبانی آپ کو تفصیل بتائے گا۔ دراصل یہ تنظیم مجاہدین اس قبائلی علاقہ کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی مکمل تیاری کر چکی تھی۔ اور اس کو کامیاب بنانے میں باقاعدہ ایک منظم پروگرام بھی تجویز دیا گیا تھا۔

جناب حضرت مولانا محمد اسحاق نے حامل رقعہ باشا صاحب کو بتایا کہ برصغیر میں مسلم لیگ کی قیادت میں پاکستان بنانے کیلئے جدوجہد آخری مراحل میں ہے۔ اور تمام مشہور علماء ہند حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کے حکم پر حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی سب مشترکہ طور پر مسلمانوں کے نئے ملک پاکستان کی جدوجہد میں شریک ہیں اور پاکستان ایک اسلامی مملکت ہوگی جس میں قانون شریعت کے مطابق نظم ونسق چلایا جائیگا۔

اس لیے اگر آپکی تنظیم نے کوئی ایسی کاروائی شروع کی توبعید ہے کہ انگریز حکومت آپ کی مخالفت کریگی اور خطرہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا مطالبہ پاکستان یعنی مسلمانوں کیلئے علیحدہ مملکت کو نہیں بننے دینگے اس لئے اپنی اس تجویز کوفی الحال معطل کردیں ۔ انگریز حکومت نے پاکستان کا مطالبہ نہ مانا تو پھر اس کے بعد آپ مجوزہ پروگرام پر عمل درآمد کریں اور اس خطرہ کو حضرت مولانانے اپنے مشورہ سے ختم کرایا۔

ریاست امب اور ریاست سوات میں تنازعہ

پاکستان بننے کے فوراً بعد ریاست امب اور سوات میں آپس کی سرحدوں کے تنازعہ پر اختلافات زیادہ بڑھ گئے اور ریاست سوات نے ریاست امب کے کچھ سرحدی علاقہ پر قبضہ کرلیا۔دونوں ریاستوں کی فوج آمنے سامنے کھڑی تھی اور کسی بھی وقت یہ تنازع جنگ کی صورت اختیار کرسکتا تھا۔

حضرت مولانا کے دونوں ریاستوں کے سربراہوں سے ذاتی مراسم تھے اور خاص کرریاست امب کے نواب میجر سرمحمد فرید خان والی امب سے خاندانی تعلق بھی تھا کیونکہ تنولی قوم کی سندھ کے مشرقی علاقہ میں آنا اور یہاں اپنا نظام سلطنت قائم کرنے میں مولانا محمد ابراہیم خان لودھی کا نمایاں کردار تھا اور اس طرح لودھی خاندان کا نواب سربراہوں سے ذاتی تعلق رہا اور ریاست امب کے علاقوں میں شروع سے قاضی لودھی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

ریاست امب کے علاقوں میں شروع سے قاضی لودھی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن میں دیرہ ،بیڑ بٹ ،بیڑ ،سوکال اورلساں نواب وغیرہ علاقے تھے اور حضرت مرحوم کے والد گرامی مولانا مرحوم نے اس خاندانی اور ذاتی تعلق کو سامنے رکھتے ہوئے والی سوات کوخط لکھا کہ دونوں مسلمان ریاستیں ہیں اور آپس میں اختلاف کیوجہ سے دونوں ریاستوں کو نقصان پہنچے گا۔

عوام کو تکلیف ہوگی اور حکومت پاکستان جوابھی ابھی وجود میں آئی ہے اس کو بھی مشکلات کا سامنا کر پڑےگا اس لئے آپ جھگڑوں کو صلح صفائی سے ختم کریں ۔والی سوات نے حضرت کو جو جوابی خط لکھا کہ قصور ریاست امب کا ہے وغیرہ ۔حضرت مولانا نے وہ خط نواب امب کو بھیج دیا۔اسکا جواب نواب امب نے بھی دیا۔آخرکار حضرت مولانا کی کوششوں سے یہ تنارعہ ختم ہوااور مملکت پاکستان میں آنے والی دونوں ریاستوں کو جھگڑے سے نجات ملی۔

اس وقت ہزارہ کاڈپٹی کمشنر منیر حسین صاحب تھے وہ بڑے قابل اور جی دار افسر تھے۔ ان کے ماموں سید فداحسین انگریز کی حکومت کے آئی سی ایس افسران میں سے تھے اس خاندانی پس منظر میں ضلع میں امن قائم رکھنے میں اس رسم ورواج کی وجہ سے قبائل کا آپس میں اختلاف شدت اختیار کرسکتا تھا اور یہ جھگڑا دوسرے قبائلی علاقوں تک بھی پہنچ سکتا تھا اور ملحقہ حکومت کابل جو پاکستان مخالف تھی وہ بھی ایسے موقع کی تلاش میں تھی کہ دخل اندازی کرے.

بقول سید منیر حسین انہوں نے راقم کو یہ واقعہ خود بیان کیا کہ اچانک ان کے ذہن میں خیال آیا کہ کہ وہ حضرت مولانا محمداسحاق سے مشورہ کریں۔ حضرت مولانا سے انہوں نے یہ واقعات بیان کئے کہ حکومت کیلئے پیچیدہ مسئلہ کوحل کرانا بہت مشکل ہے۔

حضرت مولانا کے مشورہ پر ڈپٹی کمشنر نے فریقین سے تین افرادبلائے۔مولانا نے ان سے اسلامی نقطہ نگاہ سے بات کی پھر 3 دن کے بعد فریقین کا مشترکہ جرگہ بلایا گیا۔حضرت مولانا مشتر کہ جرگہ سے مخاطب ہوئے اور پوچھا کہ وہ حکومت کے قانون کے مطابق تصفیہ کافیصلہ چاہتے ہیں یا شریعت کے مطابق سب نے متفقہ طور پر کہا کہ وہ شریعت کے مطابق چاہتے ہیں۔

حضرت مولانا نے ان کو شریعت کا قانون کے مطابق فیصلہ سنایا توسب نے اسکے آگے سرخم تسلیم کیا اور حکومت وقت جو 6 ماہ سے قانون کے نفاذ اور امن قائم رکنھے کیلئے سرحدی فوج رکھنے کے اخراجات برداشت کررہی تھی اور عجیب مشکل میں تھی۔وہ مسئلہ چند گھنٹوں میں حل ہوگیا۔اگریہ مسئلہ حل نہ ہوتا تو پڑوسی ملک کابل بذریعہ جاسوسوں کے پاکستان کو مشکل میں ڈالنے کیلئے ضرور مداخلت کرتا۔

حالات زیادہ خراب ہوتے قبائل کی آپس میں جنگیں شروع ہوجاتیں ۔بقول سید منیر حسین مولانا صاحب کا اس مشکل معاملہ کو حل کرانا حکومت پاکستان کو آنے والے خطروں سے بچانا ایک بہت بڑی قربانی اور احسان تھا.

مولانا محمد اسحاق خطیب ہزارہ کی برسی

Comments are closed.