اسماعیل ہانیہ کی قاتلانہ حملے میں شہادت، دنیا کے مختلف ممالک کا ردعمل

45 / 100

فائل:فوٹو

غزہ : حماس سربراہ اور سابق فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ہانیہ کی تہران میں قاتلانہ حملے میں شہادت پر دنیا کے مختلف ممالک نے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

فلسطین کے سابق وزیراعظم اور حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کی قاتلانہ حملے میں شہادت پر ترکیہ کی وزارت خارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ قاتلانہ حملے میں اسماعیل ہانیہ کی شہادت کی مذمت کرتے ہیں، ہانیہ کی شہادت سے ظاہر ہے اسرائیل امن نہیں چاہتا۔

وزارت خارجہ ترکیہ نے کہاکہ اسماعیل ہانیہ پر حملہ ظاہر کرتا ہے اسرائیل خطے میں جنگ پھیلانا چاہتا ہے اور نیتن یاہو کی حکومت کا امن کا کوئی ارادہ نہیں۔ اسماعیل ہانیہ کے قتل کا مقصدیہ ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگ کو علاقائی سطح تک پھیلانا چاہتا ہے۔

حماس سربراہ اسماعیل ہانیہ کی قاتلانہ حملے میں شہادت پر نائب روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ حماس رہنما اسماعیل ہانیہ کا قتل سیاسی اور ناقابل قبول ہے، اسماعیل ہانیہ کا قتل کشیدگی میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔

ادھرفلسطین کے صدر محمود عباس نے اسماعیل ہانیہ کی شہادت کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینیوں سے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔

فلسطینی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اسماعیل ہانیہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے بزدلانہ کارروائی اور خطرناک پیش رفت قرار دیا۔

محمود عباس نے فلسطینیوں سے متحد ہونے، اسرائیلی قبضے کے مقابلے میں صبر اور ثابت قدم رہنے پر زور دیا ہے۔

دوسری جانب امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اسماعیل ہانیہ نے صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ جنگ ناگزیر ہے ، میرے خیال میں سفارت کاری کے لیے ہمیشہ گنجائش اور مواقع موجود ہیں۔

امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی، اسرائیل پر حملہ ہوا تو اس کا دفاع کریں گے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس سوال پر کہ کیا وہ اس حملے کے بارے میں معلومات کی تصدیق کر سکتے ہیں جس میں اسماعیل ہانیہ کو شہید کیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس فراہم کرنے کے لیے کوئی اضافی معلومات نہیں ہیں۔

یادرہے کہ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں اسرائیلی حملے میں شہید ہوگئے، حماس نے اپنے سربراہ کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کردی ہے، اسماعیل ہانیہ ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے۔

Comments are closed.