بنگلادیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج ، 5 طلبا کی ہلاکت پر امریکا کا شدید احتجاج
فوٹو فائل
ڈھاکا: امریکی محکمہ خارجہ نے بنگلادیش میں جاری سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کے دوران 5 افراد کی ہلاکت اور 400 طلبا زخمی ہونے کے واقعات پر ردعمل جاری کردیا۔
بنگلادیش کے دارالحکومت ڈھاکا، چٹاگانگ سمیت پانچ بڑے شہروں میں ہزاروں طلبا سرکاری ملازمتوں میں نافذ کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کررہے ہیں جبکہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے حامی بھی سڑکوں پر ہیں جہاں مظاہرین اور حامیوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں ہیں۔
مظاہرین نے الزام عائد کیا ہے کہ ہے حکومت کے حامی طلبا نہ صرف حملہ کررہے ہیں بلکہ پولیس بھی اُن کو مکمل سپورٹ دے رہی ہے اور ہمارے لوگوں پر گولیاں برسا رہی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بھی “پرامن مظاہرین کے خلاف تشدد” کی مذمت کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ سے واقعات پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔
اپنے بیان میں میتھیو ملر نے کہا کہ پُرامن مظاہرین کے خلاف پُرتشدد کارروائیاں کسی صورت بھی برداشت نہیں، بنگلادیشی حکومت اس معاملے کا پُرامن طور پر حل نکالے اور شہریوں سے احتجاج کا حق نہ چھینے۔
اُدھر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بنگلادیش میں پیش آنے والے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پُرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے باز رہے اور انہیں احتجاج کرنے کا حق بھی دے۔
یاد رہے کہ بنگلادیش کی حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمتوں کے لیے نافذ کردہ کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبا گزشتہ کئی روز سے احتجاج کررہے ہیں جبکہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کا حامی گروپ بھی مظاہرین کے خلاف میدان میں ہے۔ طلبا نے اہم شاہراہوں اور ریلوے ٹریکس کو بند کر دیا اور انہوں نے کوٹہ سسٹم واپس لینے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
بنگلادیش میں سرکاری ملازمتوں کے حوالے سے کوٹہ سسٹم نافذ ہے اور 56 فیصد نوکریاں تقسیم کی جاتی ہیں، جس کے تحت 1971 کی جنگ میں حصہ لینے والوں کے بچوں کو 30 فیصد، خواتین اور مخصوص اضلاع کیلیے 10 ، 10 فیصد ملازمتوں کا کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں نافذ کردہ کوٹہ سسٹم ختم کیا جائے اور میرٹ کی بنیاد پر ملازمتوں کی تقسیم کی جائے تاکہ باصلاحیت نوجوانوں کو اُن کا حق ملے اور وہ بے روزگار نہ رہیں۔
اے ایف پی کے مطابق بنگلادیشی وزیراعظم کے حامیوں اور مظاہرین کے درمیان گزشتہ روز مختلف علاقوں میں تصادم ہوئے جس کے بعد پُرتشدد مظاہرے شروع ہوگئے، ان مظاہروں میں پانچ طالب علم جاں بحق جبکہ شہریوں اور مظاہرین سمیت 400 کے قریب افراد زخمی ہوئے ہیں۔
یونیورسٹی میں مظاہرین اور عوامی لیگ کے حامیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تو پولیس نے منتشر کرنے کے لیے شیلنگ اور مظاہرہ کرنے والے طالب علموں پر ربڑ کی سیدھی گولیاں چلائیں۔
رپورٹ کے مطابق چٹاگانگ میں تین افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ چٹاگانگ میڈیکل کالج اسپتال کے ڈائریکٹر محمد تسلیم الدین نے اے ایف پی کو بتایا، “تینوں طالب علم گولیاں لگنے سے جاں بحق ہوئے جبکہ فائرنگ کے باعث 35 زخمی بھی ہوئے ہیں‘۔
حریف طلبا گروپوں نے دارالحکومت ڈھاکا کے آس پاس کئی اہم مقامات پر مارچ کیا اور ایک دوسرے پر پتھراؤ بھی کیا۔ ڈھاکا کالج کے انسپکٹر بچو میا نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایک طالب علم پتھراؤ کے نتیجے میں جاں بحق جبکہ کم از کم 60 افراد زخمی بھی ہوئے۔
شمالی شہر رنگ پور میں پولیس کمشنر محمد منیر الزمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ جھڑپوں میں ایک طالب علم مارا گیا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں کہ طالب علم کی موت کیسے ہوئی، لیکن کہا کہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس چلائی۔
رنگپور میڈیکل کالج اسپتال کے ڈائریکٹر یونس علی نے کہا کہ “طالب علم کو زخمی حالت میں اُس کے ساتھی جب اسپتال لے کر پہنچے تو وہ دم توڑ چکا تھا‘۔
شہر کی رکیہ یونیورسٹی کے ایک طالب علم توحید الحق صیام نے اے ایف پی کو بتایا کہ حکمراں جماعت کے حامیوں نے کوٹہ سسٹم کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر حملہ کیا اور پولیس نے بھی اُن پر شاٹ گنوں سے ربڑ کی گولیاں برسائیں۔
Comments are closed.