لاپتہ افراد کے تمام کیسز براہ راست نشر کرنے کا حکم، ایجنسیزحکام کی طلبی

50 / 100

فوٹو: فائل

اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کا لاپتہ افراد کے تمام کیسز براہ راست نشر کرنے کا حکم، ایجنسیزحکام کی طلبی، حکم دیا کہ سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی، ایم آئی اور ڈائریکٹر آئی بی کو 29 مئی کو ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے شاعر احمد فرہاد بازیابی کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کیا جو 8 صفحات پر مشتمل ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی کی جانب سے اردو میں حکم نامہ جاری کیا گیا۔

عدالت نے وزیر قانون، سیکرٹری دفاع و داخلہ کو بھی 29 مئی کو ذاتی حیثیت مین طلب کیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ شاعر احمد فرہاد آئندہ سماعت سے پہلے بازیاب ہو تو رجسٹرار آفس کو تحریری رپورٹ دی جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے شاعر احمد فرہاد گمشدگی کیس میں 20 مئی کو سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ کو اگلے دن طلب کیا تھا اور آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر کے بیان پر مبنی رپورٹ بھی پیش کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

سماعت کے دوران وزارت دفاع کے نمائندے نے عدالت کو بتایا تھا کہ لاپتہ احمد فرہاد آئی ایس آئی کے پاس نہیں ہیں۔ اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے تھے کہ اب معاملہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے اختیار سے باہر نکل چکا ہے۔

ایک طرف میسجز بھیج رہے ہیں دوسری طرف کہتے ہیں بندہ ہمارے پاس نہیں،انہوں نے ریمارکس دیے تھے کہ کل دونوں سیکریٹری پیش ہوں پھر وزیراعظم اور کابینہ ارکان کو بلائیں گے۔

احمد فرہاد کی وکیل ایمان مزاری نے عدالت کو بتایا تھا کہ جمعہ کو فرہاد کے نمبر سے آنے والی واٹس ایپ کال میں کہا گیا تھا کہ درخواست واپس لے لیں اور عدالت کو کہیں وہ خود کہیں گیا تھا تو احمد فرہاد واپس آجائے گا۔

وزیر قانون اعطم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جو ریمارکس دیے اس پر تشویش ہے، کابینہ اور وزیر اعظم کو بلانے، اپنے سامنے بٹھانے کی باتیں پارلیمان کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے ریمارکس پارلیمان اور کابینہ پر دباؤ ڈالنے کے مترادف ہے، سخت باتیں کرنا عدلیہ کے شایان شان نہیں، عدالت سے جو ریمارکس کی رپورٹنگ ہوتی ہے وہ نامناسب ہے۔

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ کیا ہی اچھا ہو سنسنی پھیلانے کے بجائے عدالت احکامات جاری کرے، خوفناک چیلنجز کا سامنا ہے ایسی صورتحال میں ملک ان چیزوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

Comments are closed.