حب الوطنی کو گالی مت بنائیے
حامد میر
ہمارے نامی گرامی سیاسی رہنماؤں اور بڑے بڑے دانشوروں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انہیں اپنی تاریخ کا علم ہی نہیں۔ اگر کوئی گستاخ انہیں تاریخ یاد دلا دے اورکسی وعدہ خلافی یا غلط بیانی کی نشاندہی کر دے تو اسے غدار قرار دینے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔ آزاد کشمیر میں شہری حقوق کی حالیہ تحریک کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
1961ء میں جب آزاد کشمیر میں منگلا ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی تو میر پور اور ڈڈیال کے 250دیہات اور قصبے زیر آب آ گئے۔ لاکھوں کشمیری بےگھر ہو گئے کچھ کو حکومت پاکستان نے معاوضہ دیا اکثر کو معاوضہ نہیں ملا۔
اس وقت جنرل ایوب خان کی حکومت نے آزاد کشمیر والوں سے وعدہ کیا تھا کہ آ پ کو سستی بجلی دیں گے لیکن جب ڈیم بن گیا تو یہ وعدہ بھلا دیا گیا۔آئین پاکستان کی دفعہ 257کے مطابق آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اس تنازعے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا ہے ۔
کچھ سال پہلے جنرل قمر باجوہ نے گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر سے علیحدہ کر دیا تو گلگت بلتستان والوں کیلئے کچھ مراعات کا اعلان کیا گیا۔ اس علاقے کو کافی عرصے سے رعایتی نرخوں پر آٹا ملتا تھا۔
آزاد کشمیر والے بھی یہ سہولت مانگتے تھے لیکن انہیں یہ سہولت نہیں ملتی تھی۔اگست 2023ء میں حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا تو آزاد کشمیر کے علاقے راولا کوٹ میں بجلی کے بلوں کو نذرآتش کر کے ایک تحریک شروع کی گئی.
جس کا مقصد حکومت پاکستان کو اس کےپرانے وعدے یاد دلانا تھا جو منگلا ڈیم کی تعمیر کے وقت کشمیریوں سے کئے گئے تھے۔ آزاد کشمیر کی زیادہ ترسیاسی جماعتیں اپنی روایتی پاور پالیٹکس میں مگن رہیں۔
انہوں نے سستی بجلی کیلئے چلنے والی تحریک کو نظر انداز کر دیا ۔اس تحریک کی قیادت متوسط طبقے کے پڑھے لکھے لوگوں کے پاس چلی گئی اور تحریک کے مطالبات کی فہرست میں اضافہ ہو گیا۔
مئی 2024ء کے دوسرے ہفتے میں اس تحریک نےدوبارہ زور پکڑا تو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی والوں کا تعلق بھارت سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ جب یہ حربہ کارگر ثابت نہ ہوا تو لاٹھی اور گولی کا استعمال ہوا۔
لاٹھی اور گولی کے استعمال سے خون ریزی نے جنم لیا تو کہا گیا کہ آزاد کشمیر میں ایسے مناظر پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ صورتحال قابو سے باہر ہوئی تو جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطالبات تسلیم کر لئے گئے جس کے بعد ہڑتال اور احتجاج ختم کر دیا گیا لیکن 14مئی کی شب اس تحریک میں سرگرم ایک شاعر احمد فرہاد کو ان کے گھر سے اٹھا لیا گیا۔
اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مطالبات تو تسلیم کر لئے گئے لیکن ریاست کے اندر موجود ریاست ایسے کام کرنے سے باز نہیں آئے گی جن کے باعث لوگ دوبارہ سڑکوں پر آ سکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو ریاست کے اندر موجود ریاست کویہ سمجھ لینا چاہئے کہ آزاد کشمیر کی سیاسی اشرافیہ ان کے کسی کام کی نہیں رہی۔ یہ اشرافیہ تو خود اپنے بزرگوں کی تاریخ بھول چکی ہے ورنہ یہ لوگ اسلام آباد کے اہل اختیار کو بتاتے کہ آزاد کشمیر کو اپنی کالونی مت سمجھیں کیونکہ یہاں لاٹھی اور گولی کے سامنے کھڑے ہونے کی روایت بہت پرانی ہے۔
پاکستان کے حکمران طبقے کو معلوم ہونا چاہئے کہ 1947ء میں آزاد کشمیر کا موجودہ علاقہ کشمیریوں نے خود مہاراجہ ہری سنگھ کی فوج سے آزاد کرایا اور رضاکارانہ طور پر اپنا انتظامی کنٹرول پاکستان کے حوالے کیا۔
مہاراجہ ہری سنگھ کی فوج کے ایک مسلمان افسر کرنل مرزا حسن خان نے 1946ء میں ہی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بغاوت کا ایک منصوبہ بنالیا تھا جس میں سردار ابراہیم خان کو بھی شامل کیا گیا۔
ان سب نے دوسری جنگ عظیم کے ریٹائرڈ فوجی افسران اور جوانوں کے ساتھ مل کر ڈوگرہ فوج کو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے نکال دیا۔ اس بغاوت کا آغاز پونچھ سے ہوا بعد میں قبائلی پختون بھی اس بغاوت میں شامل ہو گئے اور یوں پاکستان اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے آ گئیں اور جنگ شروع ہوگئی جسے بند کرانے کیلئے بھارت نے اقوم متحدہ کا رخ کیا۔
پاکستانی فوج کے پہلے نشان حیدر کیپٹن محمد سرور شہید کا مقبرہ آج بھی مقبوضہ کشمیر کے علاقے اوڑی میں ہے ۔کشمیریوں نے پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ ہر جنگ میں حصہ لیا لیکن 1948ء کے بعد کشمیر کے سیاسی رہنما آپس میں لڑنے لگے۔
سردار ابراہیم خان آزاد کشمیر کے پہلے صدر تھے مسلم کانفرنس کے اندرونی اختلافات کے باعث انہیں صدارت سے ہٹایا گیا تو پونچھ میں بغاوت ہو گئی۔ 1955ء میں اس بغاوت کو دبانے کیلئے پنجاب کانسٹیبلری آزاد کشمیر بھیجی گئی تو اس کے 150جوان اغواء کر لئے گئے جب یہ بغاوت دیگر علاقوں میں پھیلنے لگی تو طاقت کا استعمال بند کر دیا گیا۔
سال 1958ء میں قائد اعظم ؒ کے ساتھی چودھری غلام عباس اور کے ایچ خورشید نے کشمیری قیادت کو متحد کیا اور جنگ بندی لائن توڑنے کا اعلان کر دیا۔ 28جون 1958ء کے دن راولپنڈی سے چناری کی طرف لانگ مارچ کرنے والی کشمیری قیادت کو گرفتار کر لیا گیا۔
کچھ عرصہ بعد پاکستان میں مارشل لاء لگ گیا اور یہ تحریک ختم ہو گئی۔ 1968ء میں مقبول بٹ شہید سرینگر جیل توڑ کر آزاد کشمیر واپس آئے تو ان پر مظفر آباد کے قلعے میں بہت تشدد ہوا۔ جب کشمیریوں نے مقبول بٹ کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع کئےتو انہیں رہا کر دیا گیا۔
سال 1971ء میں بھارتی طیارہ اغواء کرنے کے الزام میں مقبول بٹ اور ان کے ساتھیوں کو دوبارہ گرفتار کر کے لاہور کے شاہی قلعے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس ظلم و تشدد کے زخم کشمیریوں کی روح پر آج بھی موجود ہیں۔ جنرل ضیاء کے دور حکومت میں مقبول بٹ کو تہاڑ جیل دہلی میں پھانسی دیدی گئی۔
ہمارے سیاست دان اور دانشور بھول جاتے ہیں کہ مقبول بٹ کے ساتھیوں نے گیارہ فروری 1992ء کو جنگ بندی لائن توڑنے کا اعلان کیا تو ہزاروں افراد کے قافلے پر فائرنگ کر دی گئی اور سات کشمیری شہید ہو گئے۔ کشمیری اور بنگالی اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہوئے۔
پہلے بنگالیوں کو غدار قرار دیا گیا اب کشمیریوں کی تحریک کے پیچھے بھارت کا ہاتھ تلاش کیا جا رہا ہے۔ آزاد کشمیر میں اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والوں کو پاکستان کی ایک ایسی حکومت کے وزاراء مشکوک قرار دے رہے ہیں جو خود بھارت کے ساتھ تجارت کیلئے بے تاب ہیں۔
یہ حکومت جان لے کہ اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والوں کو بھارتی ایجنٹ قرار دیکر خاموش کرانا اب ممکن نہیں۔ اس دن سے ڈریئے جب لوگ سڑکوں پر آکر اپنا گریبان پھاڑیں گے اور کہیں گے کہ آؤ ہمیں گولی مارو ہم سب غدار ہیں۔ خدا کا واسطہ ہے قائد اعظم ؒ کے پاکستان پر رحم کرو یہاں غداری کو تمغہ اور حب الوطنی کو گالی مت بناؤ۔ (بشکریہ روزنامہ جنگ)
حب الوطنی کو گالی مت بنائیے
Comments are closed.