جوماتحت ہونے چاہئے تھے وہ آج ہمارے آقا ہیں،ان کے حکم پر ہم چلتے ہیں، مولانا فضل الرحمان
فوٹو: فائل
اسلام آباد: سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے کہا ہےجوماتحت ہونے چاہئے تھے وہ آج ہمارے آقا ہیں،ان کے حکم پر ہم چلتے ہیں، مولانا فضل الرحمان کا قومی اسمبلی میں خطاب، کہا فیصلے دیوار کے پیچھے ہوں اور گالیاں کھائیں سیاستدان،ہم یہاں ہر ایک قانون نہیں پاس کرسکتے۔
موجودہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنے پہلے خطاب میں مولانا فضل الرحمان نے آئین و قانون کی بالادستی پر سوالات اٹھائے، کہا ہم قانون سازی کا بھی اختیار نہیں رکھتے، دیوار کے پیچھے جو قوتیں ہمیں کنٹرول کرتی ہیں، فیصلے تو وہ کریں اور منہ ہمارا کالا کریں؟
انھوں نے کہابھارت اور ہم ایک ہی دن آزاد ہوئے، آج وہ دنیا کی سپر طاقت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے،خوش ہوتے ہیں کہ آئی ایم ایم ایف نے نئی قسط جاری کردی، اپنی صلاحیت کدھر ہے ہماری؟
مولانا فضل الرحمان نے کہا مسلئہ قیادت کا ہے، نواز شریف ، شہباز شریف اور بلاول سے کہتا ہوں عوام میں جاتے ہیں،میں کہتا ہوں اگر مینڈیٹ پی ٹی آئی کو ملا ہے تو اسے حکومت دے دیں، شاید میری بات حکومتی بینچوں کو احمقوں والی لگ رہی ہو گی۔
شاید ہم سمجھنے کے لئے نہیں نوکری کرنے کے لئے تیار ہیں، ہم جدوجہد کریں گے، یہ نظام ہمیں قبول نہیں ، انھوں نے اعلان کیا کہ 2 مئی کو کراچی میں ملین مارچ ہو گا، 9 مئی کو پشاور میں ملین مارچ ہو گا،اگر کسی نے روکنے کی کوشش کی تو نقصان اٹھائے گا، عوامی سیلاب کو روکا نہیں جا سکتا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کوئی ہمیں سکھائے تو سہی کیا سیاست ہو رہی ہے؟آج تمام عرب ممالک میں امریکی فوجیں موجود ہیں،فلسطین میں 40 ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہو چکے ہیں،سب سے زیادہ بچے ان دنوں میں غزہ میں شہید ہوئے ہیں،میں کس ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں
انھوں نے کہا جلسہ کرنا پی ٹی آئی کا حق ہے میں اسد قیصر کے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں، ہمیں 2018ء کے الیکشن پر بھی اعتراض تھا اور اس پر بھی اعتراض ہے، اگر وہ دھاندلی تھی تو آج دھاندلی کیوں نہیں ہے؟
فضل الرحمان نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسد قیصر کا مطالبہ درست ہے جلسہ کرنا پی ٹی آئی کا حق ہے میں اسد قیصر کے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں، ہمیں سنجیدگی سے دیکھنا پڑے گا ہمارا ملک اب کہاں کھڑا ہے، اس ملک کو حاصل کرنے میں اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی کا کوئی کردار نہیں، آج بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ کہاں ہے اور عوام کہاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری عوامی نمائندگی پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے بڑی جدو جہد کے ساتھ عوام کو ووٹ کا حق ملا، عوام کو بڑی جدو جہد کے بعد پارلیمانی جمہوری نظام ملا، قائد اعظم کا پاکستان کہاں ہے آج ؟ یہ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں 2018ء کے الیکشن پر بھی اعتراض تھا اور اس پر بھی اعتراض ہے، اُس مینڈیٹ کے ساتھ اگر وہ دھاندلی تھی تو آج دھاندلی کیوں نہیں ہے؟ سیاست دان معلومات کی بنیاد پر بات کرے اور ہماری معلومات کے مطابق اس بار اسمبلیاں بیچی اور خریدی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسا الیکشن ہے جس میں ہارنے والے مطمئن نہیں اور جیتنے والے بھی پریشان ہیں، جیتنے والوں کے اپنے لیڈر اپنے مینڈیٹ کو مسترد کر رہے ہیں۔
مولانا نے سوال کیا کہ جمہوریت آج کہاں کھڑی ہے؟ ہم نے اصل پر سمجھوتے کیے اور اپنی جمہوریت کو بیچا، ہم نے اپنے ہاتھوں سے آقا بنائے، ہم اپنی مرضی سے قانون بھی نہیں بناسکتے ذرا ہندوستان اور اپنا موازنہ تو کریں، دونوں ایک دن آزاد ہوئے آج وہ سپرپاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اور ہم دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کا ہرفرد 3 لاکھ کا مقروض ہے ہم نے قوم کو ہجوم بنا کر رکھ دیا، ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا آج ہم سیکولر ریاست بن چکے ہیں، 1973ء سے اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک سفارش کر عمل پیرا نہیں ہوا۔
فضل الرحمان نے کہا ہم کیسے ہم اسلامی ملک ہیں؟ ہم دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے بھیک مانگ رہے ہیں اور آئی ایم ایف کی قسط پرجشن منایا جارہا ہے۔
Comments are closed.