یہ کالم بے زبانوں کے نام !

شمشاد مانگٹ

وزیراعظم عمران خان ملکی معیشت کی بہتری کیلئے ملکی اور غیر ملکی سطح پر بیک وقت سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔انکی یہ کوششیں کیارنگ لائیں گی اسکا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔وزیراعظم عمران خان نے لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے لائیو سٹاک شعبہ میں مؤثر اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں چار بڑی فصلوں کے ساتھ ساتھ دودھ کی پیداوار سے بھی لوگوں کو بڑا ریلیف ملتا ہے۔

لائیو سٹاک شعبہ کی بہتری اور پالتو جانوروں کی افزائش کیلئے جدید طریقوں پر عبور رکھنے والے سابق رجسٹرار ویٹنری میڈیکل کونسل ڈاکٹر علمدار حسین نے اس بارے میں چونکا دینے والے انکشافات کئے ہیں۔ڈاکٹر علمدار حسین کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان میں کروڑوں بھینسیں،گائیں،بکریاں اوربھیڑیں منہ کھر کی بیماری کا شکار ہیں۔لیکن اس مرض کا علاج کرنے والے ادارے اور لیبارٹیریاں تقریباً عضو معطل ہوچکے ہیں،اس لئے اس مرض کی رفتار میں اضافہ ہوچکا ہے اور ایک طرح سے منہ کھر کی بیماری لائیو سٹاک شعبہ کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔

اس پر ستم بالائے ستم یہ ہوا ہے کہ مال مویشیوں کیلئے موجود ویکسین انتہائی گھٹیا اور غیر معیاری ہے جسکی وجہ سے سالانہ کروڑوں روپے مالیت کے جانور موت کی وادی میں اتر رہے ہیں۔اس مقصد کیلئے پورے ملک کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہیں لینے والا عملہ انتہائی بے حس ہوچکا ہے۔کیونکہ انکی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف وہ کسانوں کو ان جانوروں کی موذی بیماریوں بارے آگاہ کریں بلکہ انکے لئے بہترین علاج کا بھی بندوبست کریں اور ساتھ ساتھ اس مافیا بارے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کریں جو بے زبان جانوروں کو جعلی ادویات کے ذریعے مارنے پر تلا ہوا
ہے۔
ڈاکٹر علمدار حسین ملک کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں سات کروڑ سے زائد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ اور یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ کوئی بھی ملک میں اس وقت تک ترقی کی راہوں پر گامزن نہیں ہوسکا جب تک اس نے لائیو سٹاک کی بہتری کیلئے مدبرانہ اقدامات نہ کئے ہوں۔ لیکن یہاں مسائل در مسائل ہونے کے باعث وزیراعظم عمران خان کی سوچ تو بہترین مگر حائل رکاوٹوں کے باعث عملی جامہ پہنانا مشکل ترین لگ رہا ہے۔ عملدار حسین ملک نے کہا کہ ملک میں سوا چار کروڑ گائے ‘ سوا تین کروڑ بھینسیں ‘ چار کروڑ سے زائد بھیڑیں ‘ سات کروڑ کے قریب بکریاں منہ کھر سے متاثر ہوسکتی ہیں۔

ان کو بچانے کیلئے تین ملین سے زائد حفاظتی ٹیکہ جات درکار ہیں اور یہ ٹیکہ جات سال میں دو بار لگائے جانا مقصود ہیں جبکہ واحد ویٹنری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی سالانہ پیداوار بارہ ملین کے قریب ہے چین‘ انڈیا ‘ ایران اور ترکی نے1970 اور 80 کی دہائی میں لائیو سٹاک شعبہ کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے سب سے پہلے منہ کھر ویکسینیشن پلانٹ نصب کئے تھے۔ مگر یہاں ملک میں جانوروں کی بہتر نگہداشت اور اس سے متعلق دیگر سرکاری و نیم سرکاری اداروں نے غفلت کا مظاہرہ کیا اور پالیسی ساز اداروں کو منہ کھر کے نقصانات سے متعلق کوئی آگاہی مہم نہ دے سکے۔

جس کے باعث غربت کی لکیر سے مزید نیچے آنے کیلئے ہم نے چار ضرب چار کی رفتار سے اوپر جانے کی بجائے نیچے آتے چلے گئے۔ منہ کھر موذی بیماری ہونے کے ساتھ جانوروں میں دھیرے دھیرے سرائیت کرنے والا مرض ضرور ہے مگر اس کا ڈائریکٹ اثر مویشی پال کسان پر ہوتا ہے۔ یوں محتاط اندازے کے مطابق دس ارب روپے سے زیادہ کا نقصان اس مہلک بیماری کے باعث مویشی پال کسان کا ہو جاتا ہے۔ موذی بیماری کے باعث دودھ دینے والے جانوروں کی پیداوار کم ‘ گوشت کی کمی اور حاملہ جانوروں کیلئے جان کا خطرہ سمیت دیگر نقصانات تیزی کے ساتھ سرائیت کرتے ہیں اور اس کا اثر مویشی پال کسان پر ہوتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں علمدار حسین ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس حوالہ سے قطعاً قانون سازی نہیں اور نہ ون ہیلتھ یونٹ کے تصور کے اوپر ہم سر جوڑ کر کسی فورم پر بیٹھے ہیں۔

ایسی ادویات کی روک تھام سرفہرست ہونی چاہیے اور اس کی بڑی وجہ ادویات کی رجسٹریشن کا عمل ہے۔ دودھ کی کمی کو پورا کرنے کیلئے جانوروں کی ہڈیوں کو نچوڑنے والے انجیکشن تو مارکیٹ میں سرعام بیچے جارہے ہیں جبکہ جانوروں کی بیماری سے متعلق کسی بھی سٹور میں ادویات دستیاب نہیں ہیں۔ دوسری جانب پالیسی ساز اداروں میں لائیو سٹاک کی ترقی کیلئے کوئی خاطر خواہ ایکسپرٹ ہونا تو دور کی بات وہاں ان کی نمائندگی بھی نہیں دیکھی گئی حتیٰ کہ ویٹنری ادویات کی رجسٹریشن کا علیحدہ بورڈ ہونا ایک خواب بن چکا اور جس بورڈ میں انہیں نمائندگی دی گئی صرف دو ممبران ہونے کے باعث ان کی کسی بھی بات کو خاطر میں نہیں لایا جاتا ادھر وزیراعظم پاکستان عمران خان نے لائیو سٹاک کی ترقی کے حوالے سے جو ٹاسک فورس بنائی ہے ان میں سے متعدد افراد کو بھیڑ اور بکری کے درمیان فرق کا بھی پتہ نہیں۔

ایسے افراد وزیراعظم کے ویژن کو کیسے پروان چڑھا سکتے ہیں؟۔ ایک اور سوال کے جواب میں علمدار حسین ملک کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں ہنگامی طور پر ملک میں منہ کھر ویکسین پلانٹ لگانے کیلئے حکومت کو فی الفور اقدامات کرنے چاہئیں ،نسل بڑھوتری پر بہترین اور اعلیٰ نسل کی ویکسین درآمد کرنے کے ساتھ کسانوں کو کنٹرول ریٹ پر بھی دی جانی چاہیے۔ اور کراچی میں موجودہ دنیا کی سب سے بڑی بھینس کالونی جس میں پندرہ لاکھ سے زائد گائے اور بھینسیں موجود ہیں اس کالونی کیلئے ایک پیکج تیار کیا جائے تاکہ اس کی افزائش کو مزید بہتر اور ڈیری پر مزید اقدامات کئے جاسکیں۔

ڈاکٹرعلمدار حسین نے مویشیوں کے حوالے سے فکرانگیز صورتحال کا تذکرہ کیا ہے۔حالانکہ ہمارے ہاں انسانوں میں اس سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال موجود ہے۔مویشی تو بے زبان ہیں اور انکی تکلیف کا بھی اس وقت پتہ چلتا ہے جب مرض انہیں لاغر کردیتا ہے جبکہ اہل زبان کا عالم یہ ہے کہ ان میں منہ کھر کی بیماری جھوٹ کی شکل میں سرائیت کرچکی ہے۔مویشیوں کے پاس بولنے والی زبان ہوتی تو یقین کریں ہم جیسے جھوٹے لوگوں سے وہ علاج بھی کروانا توہین خیال کرتے اور عین ممکن ہے کہ ملک بھر کے مویشی انسانوں کی بے شرمی اور بے حسی پر شہرشہر لاک ڈاؤن کردیتے۔

ڈاکٹر علمدار کا شعبہ چونکہ لائیو سٹاک ہے لہٰذا انکی فکرمندی اپنی جگہ وزن رکھتی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ جس ملک میں سالانہ ہزاروں لوگ جعلی ادویات کے باعث یا ادویات نہ ملنے کے باعث لقمہ اجل بن جاتے ہیں وہاں بے زبان جانوروں کے حقوق کا خیال کون رکھے گا؟۔

محترم ڈاکٹر علمدار حسین کے انکشافات کے بعد انسانوں اور جانوروں کے حقوق کی عالمی تنظیمیں یہ ضرور غور کریں گی کہ اس ملک میں جانوروں کیلئے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے یا انسانوں کو انکا اصل مقام دلانے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں جانوروں اور انسانوں پر بیک وقت کام کرنے کی ضرورت ہے۔اسی لئے یہ کالم اگرچہ بے زبانوں کیلئے لکھا گیا ہے لیکن اہل زبان کی توجہ کیلئے ہے۔

Comments are closed.