یوم شہدائے جموں کشمیر

عدنان مختار

6 نومبر2020کو دنیابھر73واں یوم شہداءجموں کشمیر منایاگیا، 6 نومبرکے ہی دن سال 1947کو قابض بھارتی فوج اور مہاراجہ کے دہشت گرد ساتھیوں نے دھوکے سے ہزاروں کشمیریوں کوشہیدکیاتھا ,اس دن کی تاریخ بتاتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے 19 جولائی 1947 کو ہی فیصلہ کرچکے تھے جو بھارت کو ناپسند تھا,بھارتی افواج اور مہاراجہ کی فورس نے مسلمانوں کوکہاکہ تیاری کریں اور آپکو پاکستان پہنچاتے ہیں قافلے میں 70 سے 80 ٹرک ایک شفٹ میں لے جاتے تھے اور رستے میں قتل کردیتے تھے.

یوں ہزاروں افراد کو قتل کیاگیا جسکی خبر بھی نہ ہونے دیتے دھوکے سے نہتے نوجوان,خواتین بچوں عورتوں کا قتل عام ہوا,یہ دن 6 نومبر2020 گذر گیا لیکن آج,نوجوان نسل کو شہداء کی قربانیوں کو یاد رکھ کر ملکی تعمیر وترقی,سلامتی کے لیے کردار اداکرنا ہوگا,آزادخطہ آباؤ اجداد کی قربانیوں سے حاصل ہوا,آزادخطے میں سانس لینا ہماری خوش نصیبی ہے,اللہ تعالی کا ہر سانس کے ساتھ شکرادا کیاجائے تو بھی کم ہے.

6نومبر1947ء کو بھارتی فوج اور مہاراجہ ہری سنگھ کی مسلح افواج نے ہزاروں کشمیریوں کو بے رحمی سے شہید کر دیا تھا۔ شہید ہونے والے کشمیری عوام میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل تھیں, شہداء کی یاد میں سرحد کی دونوں جانب خصوصی تقاریب ہوتی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظمیں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے کشمیری عوام کے حق میں صدائے احتجاج بھی بلند کی جاتی ہے.

اس احتجاج کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ہمیں تحریک آزادی کشمیر کے لئے اپنا کردارادا کرناہے, بھارتی سوشل میڈیا,اخبارات ٹی وی چینلز,ریڈیو سمیت ہر ذریعہ ابلاغ پر بھارتی پراپیگنڈہ اور گمراہ کن خبریں ہوتی ہیں جو ہمیشہ پاکستان کے دشمن رہے ہیں,آج کے نوجوان ٹیکنالوجی کی صحیح استعمال سے بھی دشمن کو شکست دینے میں کردارادا کرسکتے ہیں.

اس دن مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی,
6نومبر1947ء کو ڈوگرہ اور ہندوسپاہیوں اور شدت پسندوں نے جموں میں مسلمان بستیوں پر شب خون مارا اور زندہ بچ جانے والے لوگوں سے کہا کہ جو پاکستان جانا چاہتے ہیں، وہ گراؤنڈ میں جمع ہوجائیں تاکہ انہیں صبح سویرے سواری پر سوار کرواکے سیالکوٹ پہنچادیاجائے۔ مسلمان مردوخواتین، بچوں اور بوڑھوں غرض جس نے بھی یہ اعلان سنا، بھاگم بھاگ گراؤنڈ میں پہنچ گیا جہاں لاکھوں پناہ گزیں مقیم تھے۔

یہ اپنے گھر بار، اپنے مال مویشی، اپنی جائدادیں اور زمینیں، اپنے کاروبار اور جمع پونجی ہرچیز پاکستان جانے کے نام پر چھوڑ کر چلے آئے تھے اور اب انہیں یقین تھا کہ وہ چند گھنٹوں کے سفر کے بعد سیالکوٹ جا اتریں گے جس کے بعد ان کی زندگیاں پاک سرزمین پر نیک لوگوں کے درمیان بسر ہوں گی۔ چناں چہ 6نومبر1947ء کو لگ بھگ اڑھائی لاکھ سے زائدہجرت کرنے والے مسلمانوں کو شہید کیاگیا,پیاروں کی ان تکالیف مصائب غم و الم,مشکلات اور قربانیوں کو یاد رکھ کے آزادی کشمیرممکن ہے.

صرف نوجوان نسل کو جھنجھوڑنے کے لئے ایک اورواقعہ تحریرکیاجارہاہے کہ4نومبر1947ء کو جموں سے 4ہزار مسلمانوں کا قافلہ لاریوں پر سوار کرواکر براستہ کھٹوعہ پاکستان لے جانے کے بہانے ماویٰ کے مقام پر انتہاپسندوں کے ہاتھوں تہہ تیغ کرواڈالاگیا۔ اس بدقسمت قافلے میں سے صرف 9مسلمان ہی زندہ بچ کر سیالکوٹ پہنچ سکے۔ چونکہ اس واقعہ کی اطلاع جموں تک نہ پہنچ پائی تھی اس لیے باقی لوگ اس سے باخبر نہ ہوسکے۔

اگلے روز پانچ نومبر کو بھی یہی واردات رچائی گئی۔ پھر 6نومبر کو سوچیت گڑھ میں خون کی جو ہولی کھیلی گئی، اس نے ڈوگرہ، ہندوؤں اور سکھوں کے چہرے پر وہ کالک مل ڈالی ہے جسے بار بار کھرچ کر صاف کرنے کے باوجود اجلاپن نمودار نہیں ہوسکتا کہ یہ تاریخ کا نہایت خوفناک باب ہے جس کے صفحات سے آج بھی خون رس رہاہے۔ اس دن لاکھوں افراد کو شہید کردیا گیا جن میں قائدملت چوہدری غلام عباس کی اہلیہ اور نورنظر بھی شامل تھیں۔

اس دوران چوہدری غلام عباس گرفتار تھے اور جب وہ رہا ہوئے اور ان سے کہا گیا کہ آپ اہلیہ اور بیٹی کی تلاش کے لیے جموں جاناچاہیں تو آپ کو مدد فراہم کی جائے گی تو آپ نے انکار کردیا اور کہا کہ ہر اغواہونے والی لڑکی میری بیٹی ہے،میں صرف اپنی بیٹی کے لیے کچھ نہیں کروں گا.

نومبرکامہینہ جموں کشمیرکے باسیوں کے لئے قیامت خیزتھا,ہجرت کرنے والے پاکستان سے بے پناہ محبت سے لبریزتھے,سہولیات کا فقدان تھا,رابطہ نہ ہونے سے سکھ اورہندو دھوکے سے مسلمانوں کا قتل عام کرتے رہے,آج بھی مسلمانوں کو سوچنا ہوگا کہ آج بھی مکار دشمن ہمارے ملک پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے.

Comments are closed.