ہوشیار پاگل

طارق عثمانی

ہٹ دھرم، ضدی اور بند ذہن شخص اپنا خود دشمن ہوتا ہے وہ اپنی اولاد کی راہ میں کانٹے بچھاتا ہے اور ایسا شخص معاشرے کے لیے کسی بھی طرح فائدہ مند نہیں ہوتا۔ آدمی کو چاہیے وہ بند ذہن کی بجائے کھلے ذہن سے سوچے۔ ہٹ دھرم، ضدی اور بند ذہن لوگ اپنی کمیوں کوتاہیوں کا قصور وار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔ کوئی کام وہ خود سے بھی خراب کردیں تو اس کا الزام بھی وہ دوسروں کو دیتے ہیں۔

بند ذہن لوگ اپنے کسی ذاتی فعل کی خرابی بھی دوسروں کے سر تھونپ دیتے ہیں اور دوسرے کو ہی قصوروار بنانے کے لیے ضد پر اڑ جاتے ہیں اور ہٹ دھرمی کی انتہا کرتے ہوئے سوچنے سمجھنے کے لیے اپنا ذہن مکمل طور پر بند کرلیتے ہیں اور لوگوں کی چھوٹی چھوٹی شکایتوں کو لے کر تھانے کچہریوں میں مقدمے بازیاں شروع کردیتے ہیں۔ ہمسائے، محلے دار حتیٰ کہ رشتے دار بھی ایسے انسان کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔

اس کے نتیجے میں ایسے لوگ تن تنہا ہو کر اکیلے رہ جاتے ہیں اور نئے نئے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی یہ عادت عمر کے ہر حصے میں جاری رہتی ہے۔ گاؤں دیہات میں ایسے بند ذہن شخص کو لوگ نفسیاتی مریض کہنا شروع کردیتے ہیں ایسا انسان جو کسی سمجھدار زیرک شخص کے سمجھانے پر اسے بھی اپنا دشمن تصور کرلیتا ہے اور بعض اوقات ایسا وقت بھی ہوتا ہے اسے سگی اولاد اور بیوی بھی چھوڑ جاتی ہے۔

وہ اپنے بند ذہن کی بنا پر ان کے خلاف بھی لوگوں سے شکایتوں کے انبار لگا دیتا ہے۔ میں نے ایسے لوگوں کو تھانہ کچہریوں میں دوسروں کے خلاف شکایتیں لے کر خوار ہوتے دیکھا ہے۔اس کے مقابلے میں کھلے ذہن کا شخص لوگوں سے خوشگوار تعلقات قائم کرے گا۔ آپسی معاملات کو زندگی کے اصولوں کے مطابق حل کرے گا۔ اسے کسی سے شکایت یا اختلاف پیش آئے گا تو وہ ردعمل کی نفسیات کا شکار نہیں ہوگا۔

فریق ثانی سے افہام و تفہیم سے اپنے معاملے کو حل کرے گا۔ اپنے رویے سے ضد یا ہٹ دھرمی نہیں کرے گا اور اچھے برتاؤ کا ثبوت دے کر مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کے لیے کھلے دل کا مظاہرہ کرے گا۔ کھلے ذہن کا انسان دوسروں کی رائے اور اصلاح کو اہمیت دے گا اور دوسروں سے مشورہ مانگے گا۔ کسی کو اپنی ذات سے متعلق شکایت کا موقع نہیں دے گا ایسے لوگ دوسرے سے بداعمالی نہیں کریں گے اور درست راستے کا انتخاب کریں گے۔

یہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ وہ کھلے ذہن سے اپنے معاملے کو خوش اسلوبی سے سلجھائے یا اپنے ذہن کو بند کر کے ہٹ دھرمی اور ضد پر اتر کر دوسرے لوگوں کے خلاف شکایتی شخص بن کر اپنا معاملہ بگاڑ دے۔ایسے لوگوں کے بارے میں ایک لطیفہ نما مضمون نے مجھے یہ مضمون لکھنے کی ترغیب دی وہ لطیفہ یا مضمون اس طرح بیان کیا گیا تھا :-

"کسی وکیل صاحب نے قانون کی پریکٹس میں کافی پیسہ کمایا تھا جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے وصیت نامہ لکھوایا اور وصیت میں انہوں نے کہا کہ میرے مرنے کے بعد میری ساری دولت اور جائیداد پاگل لوگوں میں تقسیم کر دی جائے۔کسی نے اس کار خیر کی وجہ پوچھی تو وکیل صاحب نے جواب دیا :
میرے پاس جو کچھ ہے وہ پاگلوں ہی سے تو مجھے ملا ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ قانون کا کاروبار پاگل انسانوں کے ذریعے دنیا میں قائم ہے۔ آدمی انتقام کے جوش میں آ کر کسی کو قتل کر دیتا ہے،کوئی کسی کی جائیداد ہڑپ کر لیتا ہے کوئی حسد اور بغض کاشکار ہو کر کسی کو پریشان کرنا چاہتا ہے کوئی ردعمل ضد اور ہٹ دھرمی میں آکر عدالتی کارروائی کرنے لگتا ہے اور دوسروں پر بے مقصد قانونی کارروائیوں میں الجھ جاتاہے یہی وہ لوگ ہیں جن کے ذریعے وکیلوں کی تجارت چلتی ہے ۔

اس قسم کے لوگ اپنے آپ کو بہت عاقل اور ہوشیار سمجھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ بدترین قسم کے پاگل ہیں عام پاگل صرف اپنے لیے پاگل ہوتا ہے مگر یہ ہوشیار پاگل اپنے ساتھ ساری انسانیت کے لیے پاگل ہوتے ہیں جو اپنا اور دوسروں کا بے پناہ پیسہ اور وقت برباد کرتے ہیں ان کی آخری سزا اگرچہ خدا کے یہاں ملے گی مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دنیا میں بھی ایسے لوگوں کا انجام عبرتناک ہوتا ہے۔

جن انسانوں کو وہ اپنے پاگل پن کا شکار بنانا چاہتے ہیں وہ تو خدا کی مدد سے محفوظ رہتے ہیں مگر خود وہ اسی گڑھے میں داخل کردیے جاتے ہیں جہاں وہ دوسروں کو گرانا چاہتے ہیں ۔ہر آدمی جو کچھ کرتا ہے وہ اپنے فائدے کے لیے کرتاہے اپنا فائدہ انسان کے لیے سب سے بڑا معبود ہے آدمی اگر معتدل حالت میں ہو تو وہ کبھی جان بوجھ کر ایسی حرکت اور کارروائی نہیں کرے گا۔

جو اس کو اپنے نقصان کی طرف لے جانے والی ہو مگر غصہ اور انتقام وہ چیزیں ہیں جو آدمی کو اندھا کر دیتی ہیں اور وہ دوسروں کی ضد میں ایسی کارروائیاں کرنے لگتا ہے جس کا نقصان بالآخر خود اسی کو اٹھانا پڑتا ہے ایسی ہر کارروائی یقینی طور پر پاگل پن ہے معروف پاگل اگر طبی پاگل ہیں تو ایسے لوگ نفسیاتی پاگل ۔

Comments are closed.