گلی نمبر چار اور گیٹ نمبر چار

فاروق فیصل خان


جی ہاں گلی نمبر چار ڈی اے وی کالج روڈ اور گیٹ نمبر چار کنٹونمنٹ بورڈ استعارہ ہیں ملک کی سیاست کے۔ گلی نمبر چار آئین اور جمہور کی حکمرانی کا جبکہ گیٹ نمبر چار طاقت کے زور پر فرد واحد کی حکمرانی کا استعارہ ہے،جس میں ڈکٹیٹر کے منہ سے نکلا ہوا لفظ ہی آئین اور قانون ہوتا ہے۔

راولپنڈی نے بڑے بڑے قابل فخر سیاسی کارکن پیدا کیے ہیں لیکن مرحوم سینیٹر مشاہد اللہ خان اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے اور شیخ رشید احمد دونوں کی آوازیں پارلیمنٹ سے لےکر ملک بھر میں گونجی ہیں۔ دونوں کا سیاسی سفر تقریبا ایک ہی وقت شروع ہوا۔


مرحوم سینیٹر مشاہد اللہ کا آبائی گھر ڈی اے وی کالج روڈ گلی نمبر چار ساٹھ کے آخری اور ستر کی دہائی میں شہر بھر کے سیاسی کارکنوں کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔۔ماشااللہ پانچ بھائی ماجد اللہ، مشاہد اللہ، مجاہد اللہ، راشد اللہ اور ساجد اللہ۔

ایوب خان کے خلاف تحریک ہو یا تحریک ختم نبوت، بنگلہ دیش نامنظور کی تحریک ہو یا 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ۔ صف اول کی قیادت میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی بھائی ہوتا تھا۔چونکہ تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا اس لیے شخصی تشہیر مطمع نظر نہ تھی

ہر موقع پر گیٹ نمبر چار کا نماہندہ اخبارات کے ذریعے کارروائی ڈال لیتا۔ دو ہی اخبار تھے روزنامہ جنگ جس کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر اس کے سرپرست اور روزنامہ نوائے وقت کے نیوز ایڈیٹر رفیق قمر مرحوم اس کے سگے بڑے بھائی تھے۔


گلی نمبر چار کے مکین کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اس نے فیلڈ مارشل ایوب خان، جرنل ضیا الحق، جرنل پرویز مشرف اور گیٹ نمبر چار کے راتب خوروں کے خلاف جدوجہد کی اور ہمیشہ آئین اور جمہوریت کی بات کی

ضیاالحق نے مزدور یونینوں پر پابندی لگا کر مزدور رہنماوں کو نوکری سے نکالا تو پی آی اے کی پیاسی یونین کے تمام رہنما روٹی روزی کے سلسلے میں مصروف ہوگئے لیکن یہ مزدور یونین کی بحالی کا پرچم آٹھا کر میدان عمل میں رہے.

وہ الگ بات ہے جب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے مزدور یونین بحال کی تو مشاہد اللہ خان جماعت کے تقوی گروپ کا شکار ہو گے اور سید مودودی کے گلشن کا بلبل میاں نواز شریف کے چمن میں چہکنے لگا۔

واہ کیا تربیت تھی کبھی بھی اپنی سابق جماعت کے بارے ایک بھی منفی لفظ زبان سے ادا نہ کیا اور جب بھی کسی نے سوال کیا ہمیشہ اپنا رہنما سید مودودی کو قرار دیا۔ میاں نواز شریف کے ہمرکاب ہوا تو وفا اور پارٹی ذسپلن کی مثال قائم کر دی۔

جرنل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو تن تنہا کراچی کی سڑکوں پر گریبان کو علم بنا کر نکل آیا اور پہلے دن ہی ڈکٹیٹر کو للکار دیا۔۔ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا مقدمہ۔۔۔طاقت اور لالچ کوئی حربہ کامیاب نہ ہوا۔

وقت بدلا وفاقی وزیر بنا لیکن مزاج نہ بدلا ۔گیٹ نمبر چار کی غیر جمہوری چالوں کا پردہ چاک کیا اور وفاقی وزارت جس کے لئے گیٹ نمبر چار کی پیداوار کسی بھی سطح تک گر سکتی ہے کو قربان کر دیا۔ خدا نے زبان عطا کی تو ہر کوئی اس کا شیدا ہوا، چھ انچ کا لالی پاپ یا سگار اس کا منہ بند نہ کر سکا۔


گیٹ نمبر چار کی پیدوار کی اٹھان چاپلوسی ریاکاری ذاتی منفعت، بےوفائی، بدزبانی کی بنیادوں پر ہوتی ہے اور کچھ ایسا ہی راولپنڈی کے دوسرے سیاسی کارکن کا تعارف ہے جس نے ہمیشہ متذکرہ بالا خصوصیت کا مظاہرہ کیا۔۔اس پر اپنا وقت اور الفاظ کیوں ضائع کیے جاہیں کہ وہ تو چھ انچ کا سگار ہونٹوں میں لے کر منہ بند کر لیتا ہے۔

Comments are closed.