کورونا۔ بچوں پر بڑھتا نفسیاتی دباؤ


محمود شام

آج اتوار ہے۔ اپنی اولادوں سے خوب کھل کر باتیں کرنے کا دن۔ ہم سب والدین۔ دادا دادیوں۔ نانا نانیوں کے سوچنے کا دن کہ ہم اپنی عمر کے آخری حصّے میں وبا سے پیدا ہونے والی اعصابی کشیدگی۔ مایوسی اور کسی حد تک وحشت کا شکار ہیں! ہمارے بچوں کو یہ سب کچھ ابتدائی عمر میں برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمارا بچپن تو خوب کھیلتے کودتے۔ سیر سپاٹے کرتے گزرا ہے۔ وقت پر اسکول جانا۔ واپس آنا۔ اچھے ناشتے۔ دوپہر کے کھانے۔ لنچ بکس۔ لیکن اب ہمارے بچوں بچیوں کو عمر کے پہلے حصّے میں ہی وبا کے اثرات کا سامنا ہے۔

ان کے دلوں میں کیسی حسرتیں ہیں۔ دماغ میں کیسے وسوسے ہیں۔ غور کیجئے کہ وہ نسل جو قرنطینہ ۔ ماسک۔ وبا۔ کووڈ 19۔ ملکوں ملکوں اموات۔ سانس لینے کی مشکلات۔ اپنے پیاروں سے ہر دو تین روز بعد کسی کے انتقال کی خبر سن کر جوان ہورہی ہے۔ اس کا ذہن کتنا دبائو میں ہوگا۔ کیا شہزادوں شہزادیوں کی کہانیاں ان کا دل لبھاتی ہوں گی؟

دنیا کے 143ملکوں میں اسکول بند کیے گئے ہیں۔ لاکھوں بچوں کے کھیلنے پڑھنے کے معمولات تبدیل ہوکر رہ گئے ہیں۔ پاکستان بھی ان ہی ملکوں میں سے ہے۔ اگر چہ دوبارہ تعلیمی ادارے کھولے جارہے ہیں لیکن بچوں کے نفسیاتی معاملات دیکھنے کے لیے جس توجہ کی ضرورت ہے۔ اس کے انتظامات کیے جارہے ہیں یا نہیں؟ عالمی ادارۂ صحت کی طرف سے جو رہنما خطوط جاری کیے جارہے ہیں ان پر عملدرآمد ہو رہا ہے یا نہیں؟

پاکستان میں بھی خبریں آرہی ہیں کہ بچوں پر نفسیاتی دبائو بڑھ رہا ہے۔ والدین کی طرف سے تسلی بخش جوابات نہ ملنے سے بچے چڑچڑے ہو رہے ہیں۔ والدین پہلے ہی تنائو میں مبتلا ہیں۔ کراچی میں خاص طور پر بچے زیادہ متاثر ہیں۔ اس میں امیر غریب بچوں کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ کیونکہ بچپن سب کا ایک سا ہوتا ہے۔ ناز و نعم میں پلنے والے بھی۔ اور غربت میں پرورش پانے والے بھی۔ ہر بچہ اپنی ماں کی آنکھ کا تارا ۔ باپ کی امید کا استعارہ ہوتا ہے۔ اپنے والدین۔ اور ان کے والدین کے لیے ڈیفنس کلفٹن کے بچوں کے بھی وہی جذبات ہوتے ہیں جو لالو کھیت، سرجانی کے بچوں کے ہوتے ہیں۔

ایک چار سالہ بچہ اس خوف میں مبتلا ہے کہ میرے پیارے دادا دادی بہت بوڑھے ہیں، ضعیف ہیں۔ انہیں کورونا لگ سکتا ہے۔ عالمی سطح پر تحقیق ہورہی ہے کہ بچے کورونا سے جسمانی طور پر بچ رہے ہیں لیکن ان کی دماغی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ 18سال سے کم عمر میں وبا کا اثر جسم پر نہیں دماغ پر پڑ رہا ہے۔ زندگی میں پہلے جیسی گہما گہمی، رنگا رنگی اور ہلہ گلہ نہیں رہا۔ اسکولوں کی بندش سے اپنی ہم جولیوں، کلاس فیلوز سے ملنا جلنا بند ہو گیا ہے۔ گپ شپ نہیں ہو رہی۔ ورزش۔ کھیل کود سب بند ہے۔

حالانکہ یہ ساری سرگرمیاں آگے بڑھنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہ وقت ہے دماغی افزائش کا۔ ان کے ذہنوں پر دبائو بڑھ رہا ہے۔ تنہائی کا۔ بعض بچے اس کیفیت سے مستقل طور پر بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ جہاں ماں باپ الگ الگ قرنطینہ میں ہوں۔ یا گھر کے دوسرے افراد کو یہ بیماری لگ گئی ہو۔ ان بچوں کی دماغی صورت حال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ جب گھر پر۔ ٹیلی وژن پر یا موبائل پر کھیلتے وقت ایسی ہی خبریں سننے، تصویریں دیکھنے کو مل رہی ہوں۔ بچے ہم سے زیادہ جذباتی اور حساس ہوتے ہیں۔ اپنے ماں باپ، دوستوں کلاس فیلوز کے لیے وسوسے کہ اگر بیمار پڑ گئے تو بچنا مشکل ہے۔ فلاں رشتے دار۔ فلاں بڑی مشہور شخصیت بھی چل بسی۔

اب جب اس وبا کو دنیا کو اپنی گرفت میں لیے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو رہا ہے اور اس کے خاتمے کے بارے میں اب بھی بے یقینی ہے۔ ایک تعلیمی سال تو متاثر ہو گیا۔ ایک اور سال اس کی نذر ہو رہا ہے۔ آن لائن کلاسیں ہو رہی ہیں لیکن اسے بھرپور تدریس نہیں کہا جا سکتا۔ کہاں وہ بھری کلاس۔ اِدھر اُدھر نظریں۔ ہنستے مسکراتے چہرے۔ کہاں گھر کے ایک کونے میں اکیلے پڑے ٹیچر کی آواز سنتے ہوئے پھر کمپیوٹر کی ایک سی اسکرین دیکھ دیکھ کر اکتاہٹ ہوتی ہے۔

بچوں کے اس ذہنی کرب کو محسوس کیا جارہا ہے یا نہیں؟ کچھ ادارے ضرور یہ کام کررہے ہوں گے لیکن ان کے نتائج سے پوری قوم کو باخبر نہیں رکھا جا رہا۔ ملکی معیشت کی بد حالی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری بھی بچوں کے ذہن پر اثرات مرتب کر رہی ہے۔ پھر حکمرانوں اور اپوزیشن کے آپس کے جھگڑے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ والدین بچوں پر خصوصی توجہ دیں۔ ان کے ذہنوں میں تڑپتے سوالات کے جوابات دیں۔ ان کے دلوں میں جھانکیں کہ وہاں کیا خدشات ہیں۔ ٹی وی چینلوں سے ایسے پروگرام ہونے چاہئیں۔ جن سے بچوں کو حوصلہ نصیب ہو اور وہ ہمارا مستقبل اپنے بیمار ذہنوں کے ساتھ نہ سنبھالیں۔

پاکستان میں اب تو بچوں کی نفسیات کے خصوصی ماہرین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ صاحب استطاعت خاندان تو ان کی بھاری فیسیں اور اخراجات برداشت کرسکتے ہیں‘ عام خاندانوں کی رسائی وہاں تک نہیں۔ وفاقی اور صوبائی وزارت تعلیم کا فرض ہے کہ وہ عالمی ادارۂ صحت کی تحقیق کی روشنی میں جاری کردہ ہدایات پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔ اب بے یقینی اور مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے بچوں کی توجہ اس وبا سے ہٹانے کے لیے تفریح کے مواقع کا اہتمام کیا جائے۔ کلاس فیلوز سے رابطوں کا بالواسطہ طریقہ سوچا جائے۔

بچوں میں جذبہ پیدا کریں کہ وہ اپنا خیال رکھیں۔ نئے دوست بنانے کے لیے تیار رہیں۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ ضروری نہیں کہ آج کے بچوں کو وہی معمولات مل سکیں، جو ہماری نسلوں کو بچپن میں میسر تھے۔ میری ایک تجویز یہ بھی ہے کہ والدین بچوں کو ایسی کتابیں، وڈیوز لاکر دیں، جن میں دنیا کی ترقی کی کہانیاں ہوں کہ انسان نے کیسے کائنات کو مسخر کیا۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں آنے والی وبائوں پر کیسے فتح پائی۔ بچوں کو بار بار یہ باور کروانے کی کوشش کی جائے کہ وہ قید میں نہیں ہیں۔ بلکہ اس خطرناک وبا سے محفوظ رہنے کے لیے گھر پر ہیں۔ اب یہ گزشتہ صدیوں والی دنیا نہیں ہے۔ اب انسان اتنی ایجادات کرچکا ہے کہ وہ گھر پر بیٹھے ہی پوری دنیا گھوم سکتا ہے۔

حالات سے با خبر رہ سکتا ہے۔ ابتدائی طبی امداد کی طرح ابتدائی نفسیاتی امداد کا اہتمام بھی کیا جائے ۔ یہ انتہائی اہم اقدام بڑوں اور بچوں دونوں کے لیے ہوگا۔ نظر رکھی جائے کہ کوئی بچہ زیادہ ذہنی دبائو میں آکر غیر معمولی حرکتیں تو نہیں کررہا ہے۔ جہاں تک ممکن ہو، ایسے بچے کو باتوں میں لگایا جائے۔ اس کے ذہن سے خدشات نکالے جائیں۔ سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے۔ بچوں کو آپس میں گپ شپ لگانے دی جائے.
(بشکریہ روزنامہ جنگ)

Comments are closed.